ستر کی دہائی کے سال تھے۔ میں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ملتان میں جھک مار رہا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ملتان ڈایوسیس کی وساطت سے نیشنل کونسل آف چرچز پاکستان (این سی سی پی)کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔این سی سی پی کی جانب سینوجوانوں کے لئے قومی سطح کے لیڈر شپ سیمینار کا بندوبست کیا گیا تھا۔ ہمارے گاؤں سے مجھے اور میلون مل کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ خانیوال سے ہمارے ساتھی جاوید ڈیوڈ کو بھی بلوایا گیا تھا۔ ہم تینوں نے صوابدیدی بے شرمی کا ارتکاب کرتے ہوئے تین دعوت ناموں پر اپنے ایک درینہ دوست کالی (یونس فیروز ڈین) کو شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اِسے اتفاق کہیں یا غلطی دعوت نامہ پر اپنے ہمراہ بستر لانے کے بارے کوئی ہدایت موجود نہیں تھی۔شرارت سوجھی کہ بغیر بستر جایا جائے گا۔ اگر انتظامیہ بستر کے بارے دریافت کرے گی تو انہیں دعوت نامہ دکھا کر زچ کیا جائے گا۔ بعد ازاں میرے کالج میں ہاسٹل سے بستر لائے جائیں گے۔ ہم تین دعوت ناموں پر چار نوجوان ملتان پہنچے تو شام ہو گئی تھی۔استقبال قیصر سرویا صاحب نے کیا۔ تین دعوت ناموں پر چار لوگوں کو دیکھ کر اعتراض کرنے کی بجائے ایک مسکراہٹ سے ہماری جانب تکنے پر ہی اکتفا کیا۔ بعد ازاں حیرانی سے پوچھا۔ ”ہاں بھئی جوانو بستر کتھے نیں؟ میں نے جھٹ سے انہیں شرمسار کرنے کا سامان دکھاتے ہوئے عرض کیا کہ دعوت نامہ میں اِس کا تذکرہ نہیں تھا چنانچہ ہم نے سوچا کہ بندو بست انتظامیہ نے کر رکھا ہے۔ قیصر صاحب کو کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا۔ کرسی سے اُٹھے اور کہا میرے پیچھے آؤ۔ وہ تیز قدم لیتے ہوئے چرچ کے عقب میں واقع کوارٹرز کی جانب بڑھے (تب اُن کی رہائش گاہ یہی مختصر سا کوارٹر ہوا کرتا تھا)۔ دیوار کے پاس جا کر انہوں نے کہا، یہاں ٹھہرو۔ وہ دوسری طرف سے اندر گئے اور کچھ دیر بعد باری باری چار بستر دیوار کے پار ہماری طرف منتقل کر دئیے۔
یہ قیصر افرائیم سرویا صاحب سے پہلی بارہمارا با ضابطہ واسطہ تھا۔ اُس کے بعد انہیں قیصر بھائی کہہ کر ہی پکارا اور وقت کے ساتھ مجھ پر اِس حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا چلا گیا کہ انہیں سب ”قیصر بھائی“کہہ کر کیوں پکارتے ہیں۔ اُس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں تھا بعدازاں کچھ سوجھ بوجھ ہوئی تو ادراک ہوا مجھے کچھ سال قبل احساس ہوا کہ قیصر بھائی کسی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کن مشکلات کے باعث حل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ کہ کس طور اِس کو حل کرنا ہے۔ نہیں بلکہ اُس کے حل کی طرف جا تے ہیں۔
ملتان ڈایوسیس کی خط و کتابت کے دعوت نامہ، اعلامیہ /اشتہار یاکرسمس کا رڈ رنگ ڈھنگ اور قرینے میں قیصر بھائی کا اچھوتا پن اور تخلیقی پہلو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوا کرتا تھا۔ اُن کے پاس ہر بات کے لئے نیا خیال، نیا رنگ اور نیا اسلوب ہوتا تھا۔ مجھے ہمیشہ خواہش رہی کہ انہیں کچھ ایسا نیا کر کے دکھاؤں کہ وہ حیران ہوجائیں جیسے ا نہیں اپنے عالی دماغ میں میرے خیال سے بڑھ کر روشن کرن نظر نہ آ پائے۔
ایک بار میں ملتان آیا ہوا تھا۔ بچوں کی نئی کلاسز شروع ہونے والی تھیں۔ قیصر بھائی کے فرش پر بچوں کی کتابیں کاپیاں بکھری پڑ ی تھیں۔ کاپیوں پر گرد پوش چڑھانے کے لئے خاکی رنگ کے کاغذ اور دیگر سامان بھی موجود تھا۔ سامان پڑا تھااور قیصر بھائی کسی دیگر کام میں مشغول تھے۔ مجھے کا پیوں پر جلد کرنے کا ایک الگ طریق معلوم تھا جو میں نے ابو سے سیکھا تھا۔ یہ طریق سب سے جدا تھا اور اِس سے کاپی یا کتاب پر جِلد کم وقت میں زیادہ مضبوطی سے چڑھتی تھی۔ وقت غنیمت جانتے ہوئے مَیں نے فوراً ایک کاپی پر جلد چڑھا کر قیصر بھائی کا انتظار کرنے لگا۔ قیصر بھائی آئے تو میری کارکردگی پر پر نظر ڈالتے ہوئے میری طرف مسکراہٹ پھینک کر پسند فرما نے کا تاثر دیا تا ہم انہوں نے خود سے جو جلد چڑھانا شروع کیا تو وہ میرے والے طریق سے مختلف اور زیادہ خوبصورت تھا۔ ایک اور مرتبہ مَیں قیصر بھائی کے ہاں موجود تھا۔ سونیا اور تانیہ لوگ کاغذ کے ہوائی جہاز بنا رہے تھے۔ مَیں نے انہیں ایک نئے طریقے سے ہوائی جہاز بنا کر د یا۔ بچے نیا خوبصورت اور الگ جہاز بنا کر دینا دراصل قیصر بھائی کو متاثر کرنے کی مہم جوئی کی۔ جب قیصر بھائی آئے انہوں نے میرے ماڈل والا جہاز دیکھا۔ پھر میری جانب دیکھا اور کاغذ لے کر خود ایک دوسرے ماڈل کا جہاز بنایا جو میرے جہاز سے خوبصورتی اور اڑان میں کہیں بڑھ کر تھا۔ مجھے لگا کہ انہوں زبان سے کچھ نہیں کہا مگر اپنے جوہر سے مجھے خوب ڈانٹ پلائی ہے۔ بس اپنی ہمت جواب دے گئی۔ اُس روز کے بعد قیصر بھائی سے بڑھ کر دل میں کچھ سوچنے یا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ملتان میں ریلوے اسٹیشن کے قریب لال گرجا گھر میں ایک جانب قیصر بھائی اور دوسری جانب پادری ڈیوڈ غلام مسیح صاحب کی رہائش تھی۔ میرے لئے جاوید ڈیوڈ اور قیصر بھائی سے ملنا کسی ایک کے ساتھ دوسرے کا درشن فری میں ملنے والی بات تھی۔ شام کو جب قیصر بھائی ڈایو سزن آفس سے واپس آتے تو چرچ سے ملحقہ مکان میں رہائش پذیر آنٹی ایلوینہ کا حال احوال پوچھتے بعد ازاں پادری ڈیوڈ غلام مسیح کے گھر آ تے آنٹی جی کا احوال دریافت کرتے اور بعد میں اپنے گھر جاتے تھے۔ مَیں اپنی گلی میں آتے ہوئے قیصر بھائی کے چلن کی پیروی کرتا ہوں۔ یہ بھی ہوا کہ میں اور جاوید اُن کے ہاں گئے تو انہوں نے کہا، جوانو ٹھہر جاؤ۔ یہ وقت بچوں کے لئے ہے تھوڑی دیر میں ملتے ہیں۔ پھر وہ ایک آدھ گھنٹہ کے بعد خود ہی آ جاتے اور گپ شپ میں وقت گزارتے۔ ہر کسی کو کوالٹی وقت دینے کے لئے وقت نکالنے کا ہنر اُ ن کا امتیازی وصف پایا۔
اپنے ساتھیوں اور پیار کرنے والوں کا سنجیدگی سے خیال ر کھنا اُن کا طرز ِ زندگی ہے۔ اُن کی وکالت کرنے میں آخری حد تک جا نے کا حوصلہ و ہمت رکھتے ہیں۔ 1987ء میں مَیں نوکری ڈھونڈ رہا تھا۔ کبھی اد ھر تو کبھی اُدھر۔ قیصر بھائی اپنے ارد گرد میری نوکری کا کوئی سبب ڈھونڈنے کی ا پنے تئیں کوشش کر رہے تھے۔ ایک روز انہوں نے مجھے کہا کہ کب تک مکینکل کے شعبہ میں نوکری تلاش کرو گے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنی مثال دی اور بتایا کہ مَیں نے بی کام کیا ہوا تھا۔ کراچی میں ملازمت ڈھونڈ رہا تھا مگر کہیں کامیابی نہیں مل ر ہی تھی۔ مَیں نے ایک تاریخ کی حد مقرر کی کہ اِس تاریخ تک مجھے میری لیاقت کے مطابق ملازمت نہ ملی تو کوئی بھی کام کر لوں گا۔ پھر وہ تاریخ گزر گئی اور مَیں نے جھینگا فیکڑی میں مزدوری شروع کر دی۔ بعد میں جب ملازمت ملی تو میں نے مزدوری چھوڑ دی۔
ڈایوسیزن آفس ملتان میں کسی نہ کسی بہانے سے قیصر بھائی بشپ صاحب کو بتاتے رہتے کہ یہ کام عطا بہت اچھی طرح کرتا ہے۔ ایک شب قیصر بھائی کسی کام کے لئے ہدایات لینے بشپ صاحب کے ہاں گئے۔ ایک لڑکا بشپ صاحب کی ٹانگیں داب رہا تھا (بشپ صاحب کو ٹانگیں دبوانے کا شوق تھا)۔ قیصر بھائی نے فوراً کہا، ماموں جی یہ کام عطا سے بہتر کوئی نہیں کرتا۔ بات تو سچ تھی۔ میں اور میلون اِس کام میں خوب مہارت رکھتے تھے۔ میلون کو اُن کے بڑے بھائی پرسی اور مجھے میرے والد سے یہ سیکھ ملی تھی۔ میں جب بھی کوئی ٹورنامنٹ کھیلتا، یا میچ کھیل کر آتا تو وہ میری ٹانگیں دباتے تھے۔ بشپ صاحب نے بھانپ لیا کہ قیصر بھائی کیا چا ہتے ہیں۔ انہوں نے قیصر بھائی سے کہا، عطا کو بلوا لو۔ ہو سکتا ہے بشپ صاحب نے دل میں سوچا ہو کہ ابھی بلوا لو۔ کل کو مجھے کوئی کام کرتا دیکھ کر قیصر سے یہی جملہ نہ سُننا پڑ جائے۔ قیصر بھائی نے مجھے صرف ایک جملہ پر مبنی خط لکھا۔ جلدی ملتان آ جاؤ۔ تُم جس کی تلاش کر رہے ہو وہ تمہیں یہیں ملے گی۔ اِس ذو معنی جملہ میں اُن کی خوشی اور فتح مندی کا احساس تھا۔تا ہم 4اپریل 1988ء کو مَیں لاہور میں پیکجز میں جوائن کرچکا تھا۔
اُنیس سو سترکی دہائی میں پی ٹی وی کے مقبول ترین معلوماتی پروگرام ”نیلام گھر“ کی طرز خدو خال کے اعتبار سے ہوا کرتا تھا جس کو طارق عزیز پیش کیا کرتے تھے۔ طارق عزیز اُس وقت ملک کے چوٹی کے پروگرام پیش کار تھے۔1980ء کی دہائی کا تیسرا سال تھا۔ قیصر بھائی، کامی بھائی، ماموں ہربرٹ، ریاض بھائی (مرحوم)، یعقوب سفری، جاوید ڈیوڈ اور طبلہ نواز جاوید، پیٹرک حیات اور فرح راحیل نے نیلام گھر کی طرز پر ایک پروگرام ”انعام گھر“ شروع کرنے کا خیال تراشا۔ جس کا مقصد نوجوانوں میں جاننے، پڑھنے اور جواب دینے کی صلاحیت کی نمو اور فروغ تھا۔ ”انعام گھر“ کو پیش کرنے کی ذمہ داری قیصر بھائی کی تھی۔ انعامات کے لئے یہ ٹیم تاجروں دکانداروں اور مخیر حضرات تک رسائی کرتی۔ یہ بھی ہوتا کہ انعام دینے والے کے ذہن میں کوئی سوال ہوتا تو اُ س کی طرف سے سوال کر کے جواب دینے والے کو انعام دیا جاتا۔ یہ پروگرام ضلع ملتان میں ایک مقبول پروگرام کی صورت ایک یاد گار سرگرمی تھی۔ ایک پروگرام میں اُس وقت کے وزیر ریلوے جناب یوسف رضا گیلانی مہمان خصوصی تھے۔ انہیں پروگرام نہایت پسند آیا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے قیصر بھائی کی جانب اشارہ کر کے ایک تار یخی جملہ کہا تھا، ”یہ لڑکا (قیصر سرویا) جومائک لئے سوال کر رہا ہے یہ مجھے مسیحیوں کا طارق عزیز لگتا ہے“۔ یہ حقیقت ہے کہ طارق عزیز بہت اعلیٰ پائے کے پروگرام پیش کار تھے۔ تا ہم قیصر بھائی کی آواز کا مائک رزلٹ طارق عزیز سے کہیں بڑھ کر تھا جب کہ علم،شعر پڑھنے اور برجستہ جملہ بازی میں بھی قیصر بھائی کا پلڑا بھاری تھا۔ بس طارق عزیز کے پاس ایک پلیٹ فارم تھا۔
اِسے محبت کہہ لیں یا کچھ اور نام دیں قیصر بھائی کسی کو بھی ہُنر اور صلاحیت میں اپنے ساتھیوں سے آگے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار انہوں نے انعام گھر کا پروگرام ساہیوال میں رکھا ہوا تھا۔ یہ پروگرام غالباً 14 اگست کے روز تھا۔ میں انہیں مطلع کئے بغیر اپنی کوائر کے کوئی چالیس کے قریب بچے لے کر وہاں پہنچ گیا۔ اچانک ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ پنڈال میں فوری طور پر ہمارے بچوں کے لئے الگ جگہ بنوا کر بٹھایا۔ ہم نے بہت سے ملی نغمے سنائے۔ وہاں ایک گروپ نے جمناسٹک کے کرتب بھی دکھائے۔ اُن کا سب سے بہترین آ ئٹم ہوا میں قلابازی لگانا تھا۔ وہ نوجوان ابھی اپنی مہارت دکھا کر رکا ہی تھا کہ قیصر بھائی نے مجھے سامنے بلایا۔ میں سامنے جا کر اُن کے پاس کھڑا ہوا تو مجھے ویسا ہی کرتب کرنے کا حکم دیا۔میں نے چُست کپڑے پہن رکھے تھے مگر قیصر بھائی کا فرمان تھا انکار کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں نے کھڑے کھڑے ہی قلابازی لگا دی۔جس پر قیصر بھائی نے ایک فتح مند مسکراہٹ سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے زبان سے کچھ نہیں بولا مگر یوں لگا جیسے وہ جمناسٹک کے کرتب دکھانے والے سے کہہ رہے ہوں۔ یہ کون سے بڑی بات ہے۔ یہ تو میرے ادنیٰ سے ساتھی کے دائیں ہاتھ کا کام ہے۔
اگر قیصر بھائی نے آپ سے کہا ہے کہ یہ چائے کا کپ لے لیں ورنہ مَیں یہ چائے آپ پر پھینک دوں گا تو اِس اعلان کو پھوکی دھمکی سمجھنے کی دلیری آپ کو ہمیشہ کے لئے ایک سبق آموز تجربہ سے دوچار کر سکتی ہے۔سٹونزآباد سے ملتان آنے کے لئے مجھے کوئی جواز درکار نہیں ہوا کرتا تھا۔ جاوید ڈیوڈ وہاں تھے۔ میری بہن روحامہ (بے بی) نشتر ہسپتال میں تھیں۔ ایک روز قیصر بھائی نے مجھے آنکھ مار کر کہا، ”عطا اگر بے بی نشتر میں نہیں ہوتی تو تم ہمیں ملتان آنے کی کیا وجہ بتایا کرتے۔ چنانچہ ایک روز اسی طرح کے بہا نے کے تابع مَیں ملتان آیا ہوا تھا اور قیصر بھائی کے ہاں ملتان ڈایوسیس کے دفتر میں حاضری دینے کو وہاں موجود تھا۔ پادری اشرف وہاں آ گئے۔ اُن سے میرا بہت احترام کا تعلق ہے۔ رشتہ میں وہ ہمارے بہنوئی ہیں اور ہم انہیں بھاہ جی کہہ کر پکارتے ہیں۔ قیصر بھائی کے سامنے گرما گرم چائے کا کپ پڑا تھا۔ انہیں دیکھ کر قیصر بھائی نے ادب سے اُٹھ کر مصافحہ کرکے نہایت پیار سے چائے کا پیالہ انہیں پیش کر دیا کیا۔ بھاہ اشرف نے انکار کر دیا تو قیصر بھائی نے دھمکی دینے کے انداز میں کہا، ”جے تُسی اے کپ نہ پھڑیا تے میں اے چاہ تہاڈے اتے سُٹ دینی اے“۔ یہ سُننا تھا کہ کپڑوں پر چائے گرنے کی حالت کو تصّور میں لاتے ہوئے خوف کے ملے جُلے تاثر میں مسکراہٹ کی آمیزش کر کے بھاہ اشرف نے ہماری طرف دیکھ کر کپ کی جانب شکست خو ردہ سا ہاتھ دراز کر دیا ۔ ”ڈر گئے ناں بھاہ جی! میں نے اُن کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے جملہ پھینکا،۔ میرے دئیے گئے لقمہ سے بھاہ اشرف میں پھر سے خود اعتمادی کی کھوئی ہوئی طاقت لوٹ آئی چنانچہ انہوں نے خو فزدہ ہنسی کی جگہ فتح مندی کا تاثر جمانے کے لئے دھمکی کو نظر انداز کرنے کا بھرپور تاثر دیتے ہوئے سر کو ہلاتے ہوئے منہ سے ہوں ں ں کی آواز نکال کر ہاتھ پیچھے کیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے گرم گرم چائے سے بھیگی اپنی شرٹ کو دیکھ رہے تھے۔ اُن کی ہوں ں ں ختم ہونے سے قبل ہی قیصر بھائی چائے کا پورا کپ اُن پر پھینک چکے تھے۔ بھاہ اشرف میری طرف بیچارگی سے دیکھ رہے تھے۔ ہنس تو وہ اب بھی رہے تھے مگر یہ رونے والی ہنسی تھی۔
ستر اور اَسی کی دہائی میں ملتان ڈایوسیس میں نوجوانوں کے لئے بہت سے پروگرام ایسے تھے جن سے ہمارے تصور ِ کائنات اور تصورِ حیات کو وسعت عطا کی۔ اُن دِنوں پرویز ڈیوڈ ہمارے یوتھ ڈائریکٹر تھے۔ یوتھ اسمبلی کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں پوری ڈایوسیس کے نوجوان شامل تھے۔ 4 سِول لائن خانیوال میں ہال کھچا کچ بھر ا ہوتا تھا۔صبح سے شام تلک جاری رہنے والی سرگرمی میں مختلف موضوعات پر جناب نذیر قیصر، بہت محترم جناب قیوم بھٹی صاحب کے علاوہ قیصر بھائی نے نوجوانوں سے خطاب کیا تھا۔ قیصر بھائی نے جن موضوعات پر اظہار خیال کیا اُن پر انہوں نے بہت محنت کر رکھی تھی۔ مکالمہ کا انداز ایسا مدلل کے اختلاف کی گنجائش ممکن ہو۔ مجھے یاد ہے انہوں نے بے روز گاری ہونے کے تاثر کی نفی کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”میں نے کسی پٹھان کو بے روز گار نہیں دیکھا“۔ بات اتنی واضح اور تیر کی مانند اترنے والی تھی کہ ابھی تلک خیال و فعل میں زندہ ہے۔
یوتھ پروگرامز کے دوران قیصر بھائی کی سماجی ایشوز پر اُن کے فہم کی وسعت، دسترس اور گرفت کا ادراک ہوا۔ وہ بشپ جان وکٹر سیموئیل کے دور میں گاؤں گاؤں لوگوں کو محنت کا درس، حقوق کی آگہی اور اُمید کا پیغام دینے وا لی ملتان ڈایوسیس کی ٹیم کا حصہ تھے جس میں ڈراموں، گفتگو اور مکالمہ سے آگہی بانٹی جاتی تھی۔ اِس دوران انہیں عوام میں اپنی پذیرائی کاادراک ہو چکا تھا چنانچہ اسی کی دہائی میں وہ پنجاب سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ رُکن پنجاب اسمبلی بنے تو گویا سیاست میں چرچ کی خدمت کا جذبہ ہم آہنگ ہو گیا۔
یوں ہوا کہ مَیں قیصر بھائی کے ہمراہ لاہور آیا ہوا تھا۔ اِس دوران پنجاب اسمبلی کا سیشن دیکھنے اور ہائی کورٹ کی عدالت کا ماحول دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔ لاہور میں اُن کا قیام میرے پھپھو زاد بھائی ڈاکٹر مارٹن کے ہاں ہوتا تھا۔ وہ الصبح اُٹھتے خود نہانے سے پہلے، پانی کی با لٹیاں بھر بھر کر اپنی گاڑی کو اچھی طرح مل مل کر نہلا کر چمکاتے۔ پھر خود تیار ہوتے۔
کچھ روز قبل مَیں نے قیصر بھائی سے ایک نوجوان کا نام پوچھا تو انہیں وہ یاد نہیں تھا۔ پھر ڈاکٹر مارٹن سے رجوع کیا تو انہوں نے فوراً کہا نواز شریف کالونی والا ”بوٹا مسیح“۔ نواز شریف کالونی دراصل چائینہ بستی کے لوگ تھے۔ فیروز پور روڈ پر نواز شریف کے گھر کے سامنے ماڈل ٹاؤن موڑ تک چائینہ بستی آباد تھی۔ نواز شریف سرکار نے انہیں زبردستی یہاں سے اٹھا کر ماڈل ٹاؤن کچہری کے پیچھے بسایا تھا۔ اُس وقت انہیں اڑھائی اڑ ھائی مرلہ کے پلاٹ دے کر گھر تعمیر کروا کر دئیے تھے۔ جب قیصر بھائی رکن منتخب ہوئے تو نواز شریف کالونی کے مکینوں کو بے دخلی کے مسئلہ کا سامنا تھا۔ قیصر بھائی نے مجھے بتایا کہ جب اِن کے گھر بنا کر دئیے گئے تھے انہیں بتایا گیا کہ سرکار انہیں متبادل جگہ پر گھر بنا کر دے رہی ہے مگر افسر شاہی کی چالاکی سے اُن کے نام پر ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی جانب سے قرضہ جاری کیا گیا تھا۔ پانچ سال انہیں کسی نے نہیں پوچھا تھا بعد ازاں کارپوریشن نے اُن سے رقم کا تقاضا کیا اور گھر خالی کرنے کے نوٹس تھما دئیے تھے۔ اِسی کالونی کا رہائشی بوٹا مسیح یہاں ایل ڈی اے میں الیکٹریشن کی پوسٹ پر ملازم تھا۔ اُس کی ڈیوٹی ختم ہوتی تو وہ قیصر بھائی کے پاس آ جاتا۔ ایک روز میں نے بوٹا مسیح سے پوچھا کہ تُم قیصر بھائی کی حد سے زیادہ چا پلوسی کرتے ہو۔ اتنی کہ اُس پہ جھوٹ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ وہ کہنے لگا ”میری چاپلوسی کی وجہ آپ نہیں سمجھو گے۔ مَیں خاکروب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ میٹرک پاس کر کے الیکٹریشن کا کورس کیا تھا۔ میرے لئے ہر دفتر میں صرف خاکروب کی نوکری تھی۔ آخر کار میں نے خدا کی رضا جان کر یہی نوکری شروع کر دی۔ قیصر صاحب ہماری کالونی کے گھروں کے مسئلہ کو حل کروانے آئے تو کسی طرح انہیں پتہ چلا کہ مَیں الیکٹریشن ہوں اور خاکروب کی نوکری کرتا ہوں۔ بس پھر انہوں نے میری تعیناتی اُسی دفتر میں الیکٹریشن کی اسامی پر کروا دی۔ اب جس دفتر میں خاکروب تھا وہیں پر الیکٹریشن کی پوسٹ پر ہوں۔ میری تو نسلیں بدل گئی ہیں عطا صاحب۔ اُس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔
چائینہ بستی لاہور کا ذکر ہوا تو کچھ اُس بارے قارئین کو خبر ہو کہ مسیحیوں مبینہ طور پر کی یہ بستی قیام پاکستان کے وقت سے یہاں پر موجود تھی۔ بعد ازاں ایل ڈی اے نے یہاں پر نواز شریف پارک بنانے کا منصوبہ بنایا تو مسیحیوں کو یہ جگہ خالی کرنے کے بارے حکم دیا گیا۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ بستی اِس لئے اُٹھوائی گئی تھی کہ یہ نوازشریف کے گھر کے سامنے موجود تھی۔ اِس بستی کے مکینوں کے لئے ماڈل ٹاؤن کچہری (فیروز پور روڈ پر بہار کالونی کے سامنے پھاٹک کے سٹاپ پر) کے پیچھے متبادل بندوبست کیا گیا تھا۔ دہائیوں سے اِس جگہ پر رہائش پذیر چائینہ بستی کے مکین بے دخلی پر رضامند نہیں تھے۔ انہوں نے سرکار کے فیصلہ کے خلاف مزاحمت کی جس کی قیادت سٹونزآباد کے بیٹے چوہدری پروفیسر گلزار وفا نے کی تھی۔ نواز شریف سرکار نے چائینہ بستی کے مسیحیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا کے طور پر چوہدری گلزار وفا کو حوالات میں بھی بند رکھا۔بعد ازاں اُن کا تبادلہ لیہ مظفرگڑھ کر دیا گیا۔ اِس مزاحمت میں ڈاکٹر سیموئیل نسیم کے چھوٹے بیٹے روحیل سیموئیل، چوہدری گلزر وفا کے ساتھ تھے۔
قیصر بھائی جس دفتر میں جاتے انہیں مسئلہ کے بارے پورا ادراک ہوتا تھا جس کے باعث کلرک انہیں کسی معاملہ میں الجھا نہیں پاتے تھے۔ ایک مسیحی استاد مسز میوریل رشید گریڈ 9میں بھرتی کی گئی تھیں جبکہ اُن کی دیگر مسلمان استانیوں کو گریڈ 14 دیا گیا تھا۔ جب قیصر بھائی کے علم میں لایا گیا تو وہ متعلقہ دفتر میں پہنچ گئے۔ کلرک بادشاہ نے قیصر بھائی کو الجھانے کے لئے کہا ”سر یہ نیشنلائز کیڈر سے تعلق رکھتی ہیں اِس لئے اِن کا گریڈ14 نہیں ہے۔ قیصر بھائی نے اُسے بتایا کہ نیشنلائزیشن یکم اکتوبر1972ء کو ہوئی تھی جبکہ یہ تعیناتی1974ء کی ہے۔ یہ کسی طور نیشنلائزڈ کیڈر میں نہیں بنتی۔ اِس پر کلرک شرمسار ہوگیا۔ اِس کے بعد اسمبلیاں ٹوٹ گئیں اور قیصر بھائی واپس ملتان چلے گئے۔ تاہم فوری طور پر مسز میوریل رشید کو 12واں گر یڈ مل گیا اور انہوں نے اُسی پر قناعت کر لی۔ اور گریڈ 14لینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
ایک روزہم لاہور سیکرٹریٹ میں اُن کے دفتر میں تھے۔ مجھے ایک درخواست دے کر کسی آفس میں بھیجا۔ درخواست میں راولپنڈی میں کام کرنے والی ایک مسیحی نرس شرین جان نے لاہور میں تبادلہ کی استدعا کی تھی۔ میں متعلقہ شخص کو درخواست دے آیا۔ شام چار بجے میں اُسی آدمی سے تبادلہ کے آرڈر لے آیا۔ قیصر بھائی نے آرڈر پڑھا اور کہنے لگے ”آرڈر تو ہو گئے ہیں مگر لڑکی کو ڈی جی نرسنگ کے دفتر کے چکر لگانے پڑیں گے۔ ٹھہرو میں خود آرڈر کروا کے لاتا ہوں۔ بعد ازاں قیصر بھائی دوبارہ گئے اور اُس آدمی سے کہا کہ یہ آرڈر نہیں مجھے دوسرے آرڈر دو جو میری بہن اپنے ایم ایس کو دکھائے اور وہاں سے فارغ ہو کر سروسز ہسپتال آ جائے۔ اُس آدمی نے کہا مجھے یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ آپ کی بہن کا کام ہے۔ چنانچہ اگلے روز مَیں اُسی آدمی سے دوسرے آرڈر لے کر آیا۔ قیصر بھائی گویا ہر کام جی سے کرتے ہیں یہ جان کے نہیں کہ آدمیوں کے لئے کرتے ہیں بلکہ خدا کے لئے کرتے ہیں۔
قیصر بھائی کے بارے بات اُن کے ڈیڈی جناب ایبل سرویا صاحب کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہم سب اُنہیں ڈیڈی جی کہہ کر بلاتے تھے۔ میاں چنوں تحصیل کے نواح میں موسیٰ ورک کے قریب مسیحی گاؤں چک نمبر113/16۔ایل سے تعلق رکھنے والے ایبل سرویا صاحب سرکار میں بطور کلرک بھرتی ہوئے تھے اور بعد ازاں اپنی محنت، دیانتداری اور صلاحیت کے باوصف ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔ اُن دنوں ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ بھی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر کے دستخط سے ہی جاری ہوتی تھی چنانچہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر ضلع کا مالک تصّور کیا جاتا تھا۔ وہ ملتان میں بھی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر رہے تھے۔ اُن کی ایمانداری کے بارے قصّے مشہور تھے۔ ایک روز ہمارے اسکول کے کلرک ماموں سیموئیل منتظر نے بتایا کہ وہ اکاؤنٹس آفس گئے تو وہاں ایک ٹھیکیدار کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ اُس کا بل ایبل صاحب سے قبل اڑا ہوا تھا۔ ایبل صاحب نے میرٹ پر اُسے کلیر کر دیا تھا۔ ٹھیکیدار کلرکوں سے شکایت کر رہا تھا کہ صاحب نے بِل پاس کر دیا ہے۔ میں اپنی خوشی سے انہیں کچھ نذرانہ دینا چاہتا ہوں مگر وہ مجھے لفٹ نہیں کرواتے۔ کسی سے سُن کر ککڑ گرجے گیا جہاں اُن کا بیٹا (قیصر بھائی)کام کرتا ہے مگر اُس نے بھی کچھ وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ڈیڈی جی کے ماتحت گاڑیوں پر دفتر آتے تھے جب کہ وہ بائی سائیکل پر تشریف لاتے۔ نہایت منظم شخصیت کے مالک تھے۔ خوش لباس تھے اور پہناوے کا بہت دھیان رکھتے تھے۔ اتوار کے روز ہفتہ بھرپہننے والے کپڑ وں کو نہایت سلیقے سے استری کر کے ہینگر میں لگا کر رکھ لیتے تھے علاوہ ازیں اُن کے نیچے جوتیاں پالش کر کے رکھی ہوتیں تھیں۔
ڈیڈی جی اپنے ہم عصر اور چھوٹے بڑے نوجوانوں میں مقبول اور رول ماڈل تھے۔ ایک روز ماسٹر پارس رابرٹ صاحب کے صاحب زادے کامی(سیموئیل کامران) بھائی اور مَیں ڈیڈی جی کے بارے بات کر رہے تھے کہ کامی بھائی نے کہا”ہم لوگ قیصر بھائی کے لیلے ہیں۔ کہنے لگے ڈیڈی جی کے بھی بہت سے لیلے تھے۔ میرے ابو سمن لعل، اوم پرکاش صاحب اور دیگر بہت سے نام لئے جن کا تعلق ڈیڈی جی کے ساتھ وہی تھا جو ہمارا قیصر بھائی کے ساتھ ہے۔ کامی بھائی کہنے لگے کہ لیلے رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ اُن کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اُن کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ڈیڈی جی نے لیلے رکھے تھے اور قیصر بھائی نے اُس روایت کو نبھایا ہے۔
ہم قیصر بھائی کہہ کر پکارتے ہیں اور میرے والد ڈیڈی جی کو بھاہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ مجھے یاد ہے ابو ہمیشہ ڈیڈی جی کی بات بہت ادب اور فخر سے سناتے۔ بھاہ جی جتھے وی جان شام نوں بیڈمنٹن دے کورٹ وچ ملن گے تے پوری تیاری نال۔ نیکر تے ٹی شرٹ وچ ملبوس۔ سچ تو یہ ہے کہ قیادت کرنے، دوسروں کی مدد کرنے اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ہونا قیصر بھائی کو ڈیڈی جی سے منتقل ہوا ہے۔
قیصر بھائی کی والدہ کا نام ”نذیر بیگم“ تھا۔ سب انہیں ”ماں جی“ کہتے تھے۔ میرے ابو اُنہیں ”بوا جی“ کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ کہتے تھے ”اے بچے مینوں چاچو کیندے نیں پر میں ایناں دا ماموں آں“۔ اُدھر مون،سونیا اور تانیا ہمیں (جاویدڈیوڈ، پرویز ڈیوڈ، جاوید طبلہ نوازاور یعقوب وغیرہ) چاچو کہہ کر پکار تے ہیں مگر ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہم اُن کے ماموں ہیں۔
کئی سال تک دسمبر کے پہلے ہفتہ کا شدت سے انتظار ہوتا تھا۔ قیصر بھائی اکتوبر میں لا ل گرجا کے صحن میں موجود نیم کے پیڑ کی چھنگائی کروا کر لکڑیاں ایک طرف سوکھنے کے لئے رکھ دیتے تھے۔ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں بیڈمنٹن ٹورنامنٹ کا میلہ سجتا تھا۔ ہم لوگ سٹونزآباد سے آتے اور پھر تین روز تک خوب مزا رہتا۔ شام کو میچ ہوتے تو ملتان سے کھیلنے والوں اور دیکھنے والوں سے احاطہ بھر جاتا۔ چائے کے ساتھ سب کی توضع باجی زیب کے کچن سے ہوتی۔ میچز ختم ہوتے تو ہم وہیں کرسیوں پر جمے رہتے۔ کرسیوں کے دائرے میں نیم کی سوکھی لکڑیوں کا الاؤ جلتا رہتا۔ کھلے آسمان سے اوس سب کچھ گیلا اور ٹھنڈا کر دیتی مگر ہماری باتوں کی گرمی ماند نہیں پڑتی تھی۔
ایک سال ڈبل میں میرے ساتھی جوزف ڈین نہ آ سکے۔ مَیں نے ڈیڈی جی کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ ہماری جوڑی سب سے زیادہ مضبوط تھی۔ فائنل یا سیمی فائنل میں ہمارا مقابلہ قیصر اور جاوید ڈیوڈ سے تھا۔ تکنیکی لحاظ سے ہماری جوڑی قیصر اور جاوید سے بہت زیادہ بھاری تھی۔ کھیل شروع ہوا تو مَیں نے دیکھا کہ قیصر اور جاوید ہر بار شٹل ڈیڈی جی کی طرف پھینکتے ہیں۔ ایک مناسب وقفہ سے قیصر بھائی اور جاوید مجھے کہتے رہے۔ ”یار ڈیڈی جی نوں وی کھیڈن دے۔“ اُن کا مقصد ڈیڈی جی کو یہ احساس دلانا تھا کہ عطا over reachingکر رہا ہے اور اُن پر بھروسہ نہیں کر رہا۔ قیصر بھائی کا تیر بھلا کیسے چوک سکتا تھا۔ ایک تو ہم ہارے اوپر سے مجھے ڈیڈی جی سے ڈانٹ الگ سے پڑی۔
سال یاد نہیں جب قیصر بھائی نے ایک کلر لیبارٹری خرید ی تھی۔ ”سونی کلر لیب“ کے نام سے کام کا آغاز ہوا۔ جاوید ڈیوڈ اور اُن کے ساتھ ٹیم نے مہینوں میں ”سونی کلر لیب“ کو شہر کی نمبر ون لیبارٹری بنا دیا۔ اُنہیں لودھراں تک سے کام ملتا تھا۔ شہر میں اُن دنوں ”گیلکسی کلر لیب“ سب سے زیادہ مقبول اور پرانی تھی۔ انہیں اپنی بقا خطرے میں نظر آئی تو انہوں نے ایک سازش کھیلتے ہوئے اپنے ایک سینئر کاریگر کو نکال دیا۔ وہ سونی کلر کے پاس آ گیا۔ ایک رات وہ کیمیکل میں کچھ ملا کر بھاگ گیا۔ تمام فلمیں ضائع ہو گئیں۔ لوگوں کی شادی وغیرہ کے ایونٹ تباہ ہو گئے۔ ”سونی کلر لیب“ نے گاہکوں کو مفت فلمیں دیں مگر ساکھ ختم ہو چکی تھی۔ یہ کام ختم کرنا پڑا۔ میں قیصر بھائی سے افسوس کرنے گیا تو انہوں نے نہایت اطمینان سے کہا، ”میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ا تنابڑا نقصان اُٹھانے کے لائق بنایا ہے۔“ مَیں افسوس کرنے گیا تھا مگر زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھ کر گھر لوٹا۔
ایک دفعہ مَیں اور قیصر بھائی ملتان کینٹ میں موجود سبزی تر کاری کی ایک بڑی دکان پر گئے تو قیصر بھائی نے کہا ”جب میرے پاس سائیکل کی سواری تھی تو میں اِسی دکان پر آتا تھا، پھر موٹر سائیکل تھی اور اب میرے پاس کار ہے، مَیں اِسی دکان پر آتا ہوں“۔ حقیقت یہ ہے کہ قیصر بھائی نے کسی سے جو رشتہ استوارکر لیا اُسے قائم رکھنے میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ وہ چاہے سبزی والا ہو یا میرے جیسا کوتاہ قامت، اُنہوں نے اپنے حصے کو خوب نبھایا ہے۔
ایک روز اسلام آباد کی ایک تنظیم نے مجھے دو کُتب کا اُردُو میں ترجمہ کرنے کے لئے میرے دستیابی کے بارے پوچھا۔ ایک روز کا وقت دیا۔ رات کو مَیں اِس بارے سوچ رہا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ ایک روز قیصر بھائی نے مجھے بتایا تھا ”مَیں نے بہت محنت کی ہے۔ سینکڑوں صفحات ٹائپ کرنے کا کام لیا ہے۔ رکشہ بھی چلایا ہے“۔ اور مزید کہا ”جب تک ہمت ہے اضافی وقت میں بھی محنت کر لو“۔ میں نے اگلے روز اُس تنظیم کو ہاں کر دی اور فون کر کے قیصر بھائی کا شکریہ ادا کیا۔
کالج کا زمانہ تھا۔ ایک روز بیولف سردار جنگن اور میں قیصر بھائی کے بارے بات کر رہے تھے، بیولف نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ”نیکی اور اچھائی قیصر کے اندر اِن بِلٹ(in-built)ہے“۔ پھر کہنے لگا ”مَیں اور قیصر ساہیوال میں سڑک پر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ایک آدمی ہمارے پاس سے گزرا۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ سامان تھا۔ اچانک اُس میں سے ایک پیکٹ نیچے گرا“۔ بیولف ایک لمحہ کو رُکا اور پھر کہنے لگا، جتنی دیر میں رُکا ہوں قیصر نے اتنی دیر بھی نہیں لگائی اور وہ پیکٹ فوراً اٹھا کر اُس شخص کو دے دیا“۔ یار کسی کی مدد کرنے کے لئے اُسے سوچنا نہیں پڑتا۔اُس کے اندر اچھائی کا خود کار نظام لگا ہوا ہے جو فوراً متحرک (activate) ہو جاتا ہے۔ قیصر بھائی کا پہلا صفحہ لکھا تو معروف مسیحی موسیقار، دانشور اور نقاد جناب نوئیل جمشید نے فون کر کے قیصر بھائی کی شخصیت پر سیر حاصل تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ”قیصر سرویا پنج پتیہ ہیں۔ بے پناہ صلاحیت کے مالک ہیں اور بڑے براڈ کاسٹر ہیں“۔
صبح کا راگ بھیروی ایک سمپورن راگ (سمپورن راگ میں ساتوں سُر لگتے ہیں) ہے۔ صبح کا راگ ہے مگر دِن کے جس پہر بھی گائیں رچ جاتا ہے گویا ہر وقت بھیروی کا وقت ہے۔ اسی لئے بھیروی کو سدا سہاگن بھی کہا جاتا ہے۔ بھیروی میں سب سُر کومل لگتے ہیں۔ عجب بات ہے کہ اِس میں اُس کے سات کومل سروں کے علاوہ کسی تیور سُر کی آمیزش کی گنجائش اور قبولیت بھی پائی جاتی ہے۔ قیصر بھائی کی اُٹھان کومل سُروں میں گندھی ہے مگر یہاں بھیروی راگ کی مانند تیور سروں کے لئے دروازے بند نہیں ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ اگر اوپر والا راگ بھیروی کو کوئی جسم عطا کرتا تو اُس کا نام صرف اور صرف قیصر سرویا ہی ہوتا۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******
Thanks a lot….
میں نے اپنے آپ کو پڑھا، مجھے تو بعض واقعات تو یاد بھی نہیں،
دراصل بھلائی انسان کے ریکارڈ کو درست کرنے کیلئے نہیں ہوتی بلکہ یہ روزانہ کی کاروائی ہوتی ہے، اور یہ سب کچھ آپ کو اچھی صحبت اور اس صحبت کے پیچھے والدین ہوتے ہیں، جیسے کہ محترم ماموں سمن لعل صاحب اور ان کے پا جی میرے اور مجھ سے محبت کرنے والوں کے ڈیڈی مسٹر ایبل سرویا صاحب ہیں، ہم تو ان کے نقش پا پہ چلتے رہے اور تاریخ خود اپنے آپ کو لکھتی رہی، یہ تحریر عطا الرحمن سمن نے نہیں لکھی، یہ اس کی محبت کا خاصہ ہے جو اسی کو حاصل ہے،