پوپ فرانسس اور نقوی ملاقات اور ڈاکٹر نیلسن عظیم کا قومی اسمبلی سےخطاب : گمیلی ایل ڈوگرہ

تاریخ کے دریچوں میں کمانڈر لیزلی“ کانام پاک فوج کے کرسچن افسران میں دمکتا ستارہ ہے۔ریلوے ملازم ڈک ورتھ کے بیٹے لیزلی لاہور کی ایک کرسچن فیملی کے چشم و چراغ تھے جنہیں پاک فضائیہ میں پیار سے کمانڈر لیزلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں دشمن کے حملہ اور لڑاکا طیاروں کو شکار کرنے کے صلے میں ستارہ جرات کا اعزاز حاصل کیا۔ 1968 کی عرب جنگ میں پاکستان کی طرف سے وہ اسرائیلی فضائیہ کے خلاف لڑے اور اردن کا اعلیٰ اعزاز حاصل کیا ۔1971 کی جنگ میں ان کی شہادت پر اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے جو کہ خود بھی ایک ماہر پائلٹ تھے اُن کی بیوہ کو خط لکھا ”بہن! کمانڈر لیزلی کی موت میرا ذاتی نقصان ہے میری خواہش ہے اگر شہید کے جسد خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے لگو تو اس کے سر کے نیچے اردن کا پر چم ضرور لپیٹ کر رکھنا ”کمانڈر لیزلی نے مادر ِوطن کے ساتھ وفاداری کا حق ادا کرنے کی خاطر ایک مسلم ملک کو بھی تا ابد اپنا شکر اور ممنون کر دیا”۔
تاریخ کے اوراق مسیحیوں کی پاکستانی حب الوطنی اور ملک سے وفاداری کا ثبوت ہیں جس میں آج قیام پاکستان کے لیے اُن کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں سانحہء سرگودھا کے ایشو کوگزشتہ دنوں ڈاکٹر نیلسن ایم این اے نے اٹھایا۔کیا دیگر مسلم کرسچن ہندو سکھ صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ممبران کی خاموشی ہمیں یاد نہیں رہے گی کہ سچ کے ساتھ ملک کے بڑے خاموش کیوں ہیں؟ اُن کی خاموشی ملک میں اقلیتوں کے لیے مایوسیاں پیدا کر رہی ہے۔ پاکستانی مسیحیوں کا ٹریک ریکارڈ مسلمانوں سے زیارہ حب الوطنی اور وفادراری ہے تاریخ کو پڑھ لیا جائے۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر داخلہ اور سابقہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی عالمی طاقت ور اور مذہبی شخصیت،مسیحیوں کے پیشوا ہز ہولی نیس پوپ فرانسیس سے ملاقات بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ مختلف تبصرہ نگار اور تجزیہ نگار اسے مختلف زاویوں سے اپنے اپنے نقطہ ِنگاہ کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے نظر آرہے ہیں جس میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے اس ملاقات کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل نوے کی دہائی میں شہباز بھٹی، اکرم گل، ڈاکٹر پال اور بعدازاں کامران مائیکل سابقہ حکومتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزر اور مشیر ہونے کے ناطے پوپ اعظم سے ملاقاتیں کرتے رہے اور پوپ اعظم کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے چکے ہیں اور اس دفعہ بھی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی دعوت پر پوپ اعظم کو پاکستان کے دورے کی دعوت دینے پر اُن کے آنے کی توقع مجوزہ ملاقات کے نتیجے میں کی جا رہی ہے۔
مذکورہ ملاقات پوپ فرانسس اور وزیر داخلہ پاکستان محسن نقوی کے درمیان ایک خوشگوار ماحول میں ویٹیکن سٹی میں ہوئی ہے۔ویٹیکن سٹی میں یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب سانحہءسر گودھا سے مسیحیوں کو بے دردی سے عدم برداشت اور کاروباری رنجش کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں بلوے کے نتیجے میں نذیر مسیح کا حساس قانون (توہینِ مذہب) کے تحت الزام لگا کر انتظامیہ کے روبرو قیمہ بنا دیا گیا اور چند دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسے اجل کھا گئی اور سٹیٹ کی جانب سے آفیشلی مذمت بھی نہ کی گئی اور اس ایشو پر سٹیٹ کے بڑوں کی جانب سے خاموشی سے، اقلیتیں مایوس نظر آئی ہیں۔
ویٹیکن سٹی میں ملاقات میں پاکستان سے سانحہء جڑانوالہ اور سانحہءسرگودھا پر بھی بات ہوئی فاضل وزیر داخلہ کی جڑانوالہ چرچز اور گھرانوں کی بلوہ اور اجتماح کے بے لگام ہونے کے نتیجے میں تباہی و مسماری کے بعد اُن کی تعمیر ِنو کے کام میں راہنمائی پر پوپ اعظم نے محسن نقوی کی کاوشوں کو سراہا مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے پوپ فرانسس نے کہا؛
”فلسطین کی صورت حال باعث تشویش ہے، فلسطین میں مصروف فلاحی ورکرز سے روزانہ اپ ڈیٹ لیتا ہوں، بین المذاہب ڈائیلاگ اور سماجی ہم آہنگی ہی مسائل کا حل ہیں“
اس سلسلے میں عالمی طاقتوں کو متوجہ کرنے کے لیے پوپ سے یہ ایک رسمی ملاقات پر پاکستانی میڈیا پر تبصروں کی بھر مار ہے پاکستانی میڈیا نے فلسطین کی حمایت کے لیے پوپ اعظم کی نیک خواہشات کا بھی بھر پور تذکرہ کیا ہے۔
قارئین ! فلسطین کے عوام کے ساتھ پاکستانی اقلیتوں کا دل دھڑکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اسرائیل کو تسلیم نہ کیا گیا پاکستانی اقلیتیں اپنے مذہبی مقامات جو کہ اُن کے ایمان کا حصہ ہیں وہاں کی زیارت کرنے اور برکات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ لیکن لیزلی کی شہادت فلسطین سےمحبت کی ایک بہت بڑی مثال ہے 70 فی صد مسیحیوں کی قربانیاں فوج کے لیے آن ریکارڈ ہیں لیکن صرف فلسطین کے ایشو کو اُٹھانا اور مذہبی ہم آہنگی کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ برصغیر کی دو ریاستوں بھارت اور پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کی بات اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اور بھارت کے سکھوں اور پاکستان کے مسیحیوں کی آزادی چھیننا اور ان پر اور پاکستان میں کسی سنگین اور حساس قانون کی پاداش میں بلوہ کے ذریعے جنگل کے قانون کو لاگو کرنا فلسطین سے بھی زیادہ جبر ہے۔ ریاستیں مذہبی کمیونٹیز سے یعنی بھارتی فوج لاکھوں کی تعداد میں مقبوضہ کشمیر میں موجود ہے۔ آزادی کی خالصہ تحریک کو بھی دبایا گیا۔بنگلہ دیش کو بھی ایسے ہی غیر یقینی صورت حال کا سامنا تھا اور 1971 کے بعد بنگلہ دیش اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنے لگا ۔آج وہ کامیاب ریاست ہے اور اس نے مذہب اور ریاست کو الگ الگ دیکھنا شروع کر دیااور سیکولر سوچ کو قائد اعظم کے فرمودات اور ارشادات کے تحت سب کو ساتھ لے کر چلنے کی ٹھان لی ۔آج وہ جمہوریت اور نظامِ حکومت کی جمہوری بیداری کے حوالے سے ہم سے آگے ہے۔ پاکستان میں مسیحیوں پر سانحات کے بادل منڈلا رہے ہیں جانے کہاں کیا ہو جائے کسی کو علم ہی نہیں۔ پاکستان میں حساس قوانین کا نفاذ اگر ہو گیا تو جنگل کے قانون سے تحفظ کا کونسا راستہ ہے۔ بھارت میں ہندو کو مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کرتے 76 سال ہوگئے اور خالصہ تحریک آزادی کو بھی اسی طرح طاقت کے زور سے دبایا گیا۔ اس خطے میں اقلیتوں کو ہراساں کیا جارہا ہے جبکہ پاکستانی مسیحیوں پر بے لگام بلواؤں سےمسیحیوں کا جینا حرام کیا جا رہا ہے اور جنگل کے قانون کو چرچز اور مسیحی بستیوں کے گھیراؤ جلاؤ کی روک تھام کے لیے کوئی قانونی اور انتظامی بند و بست ہی نہیں ہے۔جبکہ بین الا اقوامی فورمز پر مذہبی ہم آہنگی کی بات کی جارہی ہے۔ دنیا میں مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظ کو ریاست کی اولین ترجیح کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ خواہ پوپ سے ملاقات ہو یا دیگر بین الاقوامی فورمز جبکہ عملی طور پر یہاں خاموشی نظر آرہی ہے۔ اب ڈاکٹر نیلسن عظیم ایم این اے نے یہ بات قومی اسمبلی میں اُٹھائی ہے کہ مسیحیوں پر غلط الزام لگا کر ٹار گٹ کلنگ کے خلاف قانون سازی ہماری اشد ضرورت ہے جسے ہر ذی شعور انسان کو اس مسئلے پر غور کرنا چاہیئے۔ سیاسی جماعتیں خاموش ہیں اقلیتی ممبران اسمبلی بے خبرے، بزدل اور قوم سے وفاداری دُور سے اُن سے جھلکتی نظر نہیں آتی۔ اسمبلیوں سے زیادہ اقلیتی عوام کی ضرورت ہے بے خبرے اقلیتی نمائندگان کو اقلیتوں کی حالتِ زار پر کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ڈاکٹر نیلسن بھی تو جرات سے میدان میں آئے باقی کس کا منہ دیکھ رہے ہیں ۔ بقول فیض احمد فیضؔ
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading