عبادت میں “مقامِ حمد و ثنا” وہ لمحہ ہے جب مخلوق اپنے خالق کے حضور دل، روح، اور آواز کے ساتھ جھک جاتی ہے۔ یہ عبادت کا وہ مقدس موقع ہے جہاں انسان خدا کی عظمت کو مانتے ہوئے اُس کے جلال کو بیان کرتا ہے۔ بائبل کے مطابق جب ساز اور آواز یکجا ہوتے ہیں، تو خداوند اپنی حضوری کے تخت پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی عبادت میں حمد و ثنا کا تعین نہایت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اسی لمحے خداوند کی حضوری نازل ہوتی ہے۔
لاویوں کا کردار اور داؤدی روایت؛
بائبل میں جن لوگوں کو حمد و ثنا کے کام پر مامور کیا گیا وہ لاوی کہلائے۔ ان کا کام ہی یہ تھا کہ وہ ساز بجا کر، گیت گا کر، خداوند کے حضور شکرگزاری اور تعریف پیش کریں۔یہی روایت ہمیں داؤد بادشاہ کے عہد میں اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ داؤد نہ صرف ایک بادشاہ تھا بلکہ وہ خود موسیقی کا استاد اور روحانی گیتوں کا شاعر تھا۔ اُس کے نغموں نے نہ صرف خداوند کی مدح کی بلکہ انسان کے اندر چھپی روحانی حس کو بھی بیدار کیا۔اردو ادب میں “لحنِ داؤدی” کی اصطلاح اسی نسبت سے مستعمل ہے، جس کا مطلب ہے “خوش آہنگ اور دلی نغمگی”۔
روح سے حمد و ثنا کا مفہوم؛
جب ہم حمد و ثنا کرتے ہیں تو یہ کوئی عام گیت نہیں ہوتا۔ یہ ایک روحانی نذر ہے جو خالقِ کائنات کے حضور پیش کی جاتی ہے۔لہٰذا اس عمل میں معیار، وقار، اور روحانیت کا پایا جانا لازمی ہے۔حمد و ثنا کرنے والے خواتین و حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنے فن، اپنے دل اور اپنی نیت کو داؤد کی طرح خدا کے حضور خالص رکھیں۔ کیونکہ یہ خدمت انسان کے لیے نہیں بلکہ خداوند کی بارگاہ کے لیے انجام دی جاتی ہے۔اسی لمحے خداوند ہمکلام ہوتا ہے، اور یہی حقیقی عبادت کا نقطۂ عروج ہے۔
تعلیم، شاگردی اور روحانی وراثت؛
اس ضمن میں ایک نہایت اہم اور غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ بائیبل کی تعلیم کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنے یا سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، حالانکہ خداوند یسوع مسیح نے اپنے آخری خطاب میں اپنے شاگردوں کو صاف طور پر فرمایا تھا؛
’’جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ۔‘‘ لیکن افسوس کہ شاگرد بننا تو درکنار، آج لوگ سیکھنے کے عمل سے ہی گریزاں ہیں۔ اسی تعلیم کے تسلسل میں داؤد بادشاہ کے مزامیر ہمارے لیے روحانی اور فنی وراثت رکھتے ہیں۔ اٹھارویں صدی کے ایک جید عالم ڈاکٹر آئی ڈی شہباز نے ان مزامیر کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا، اور ایک ایسے موسیقی دان نے انہیں کلاسیکی راگوں کے قالب میں ڈھالا جو موسیقی کے علم و فن میں گہری بصیرت رکھتے تھے۔ہر ایک زبور ایک مخصوص شدھ راگ میں کمپوز کیا گیا ۔ جیسے راگ بلاول، نٹ بلاول، شکھل بلاول، کوکب بلاول، بہاگڑا، ہیمنت، ساؤنی، پہاڑی، یمن، بھیروی، بھیم پلاسی، دیوگندھاری، کھماچ، ہمیر کلیان، جون پوری، نیلم بری، جھن جھوٹی، ابھیری اور راگ بھوپ کلیان وغیرہ۔
یہ تمام راگ صرف موسیقی نہیں بلکہ روحانیت کی زبان ہیں۔ اگر آج کے نوجوان گلوکار اور بجانے والے ان زبوروں سے سبق حاصل کریں، تو نہ صرف وہ کلاسیکی موسیقی کی گہرائیوں سے واقف ہوں گے بلکہ خداوند کے حضور پاکیزہ، مقدس اور “شدھ” موسیقی پیش کر سکیں گے۔افسوس کہ یہ خزانہ اب ہمارے چرچوں سے یوں غائب ہو چکا ہے جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ عبادتوں سے وہ پاک نغمگی، وہ تقدس اور وہ سچائی رخصت ہو چکی ہے جو خداوند کے تخت کو زمین پر قائم کرتی تھی۔یاد رکھنا چاہیے جب گانا اور بجانا شدھ نہ رہے تو تخت تو ضرور لگتا ہے، مگر وہ خداوند کا نہیں، کسی اور کا ہوتا ہے۔
چرچ میوزک اور روحانی موسیقی؛
حمد و ثنا کے لیے جو موسیقی استعمال کی جائے وہ چرچ میوزک ہونی چاہیے وہی موسیقی جو فرشتوں نے عالمِ بالا میں گائی اور زمین پر خوشخبری کے وقت سنائی۔ یہ نغمے تقدس، سکون اور روحانیت سے بھرپور ہوتے ہیں، جنہیں سن کر دل نرم اور روح بیدار ہوتی ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بہت سے چرچز میں اس مقدس روایت کی جگہ شور شرابے اور بھاگ دوڑ والی ’’سیکولر‘‘ موسیقی نے لے لی ہے۔ ڈھول، طبلہ، اور تیز تالوں پر جھومنے کو’’مسح‘‘ سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ یہ صرف جسمانی وجد ہے، روحانی نہیں۔
روحانی مسح اور جسمانی وجد میں فرق؛
یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ روحانی مسح وہ کیفیت ہے جو اندر سے انسان کو بدل دیتی ہے، جبکہ وجد جسمانی تاثر ہے جو لمحاتی جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔داؤد بادشاہ جب حمد کرتا تھا تو اُس کی آواز اور ساز میں روحانی حسن ہوتا تھا ایسا حسن جو روح کو نرم کرتا اور انسان کو خدا کی حضوری کے قریب لاتا تھا۔
اختتامیہ؛
حمد و ثنا کوئی رسم نہیں، یہ ایک روحانی ذمہ داری ہے۔
اگر چرچ میں حمد و ثنا کے مقام کو اس کے اصلی مفہوم کے مطابق اپنایا جائے تو خداوند کی حضوری پھر سے واضح محسوس کی جا سکتی ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی عبادت میں سے شور اور دنیاوی رنگ کو نکال کر، لحنِ داؤدی کے روحانی رنگ کو واپس لائیں۔کیونکہ جہاں روح سے حمد کی جاتی ہے، وہیں خداوند تخت نشین ہوتا ہے اور وہی مقامِ حمد و ثنا ہے جہاں زمین آسمان سے ہمکلام ہوتی ہے۔
*******


