انسانی معاشرہ ذات پات، رنگ، مذہب اور قومی تعصب کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے آج اس نہج پر آ پہنچا ہے کہ اس کی صورت، معاشرتی عدم برداشت، مذہبی تعصب اور تفریق، جسمانی اور مالی ہوس کے رویوں نے بگاڑ کر رکھ دی ہے۔پاکستان کی چھہتر سالہ تاریخ میں پاکستانی مسیحی طبقہ کے افراد انفرادی یا اجتماعی طور پر اکثریتی طبقے کے شدت پسندوں اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں پُر تشدد رویے کی بدولت زخمی یا پھر ہلاکت کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اقلیتی برادری کے ساتھ عدم برداشت اور مذہبی تفریق کے یہ واقعات ملکی تاریخ میں کوئی نئے نہیں ہیں۔
مُلکِ خُداداد میں جہاں کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات رُونما ہو تے رہے ہیں۔ وہیں مُلکِ پاکستان میں بے قصور مسیحی افراد مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں جھوٹے الزامات کے تحت یا تو جیلوں میں تکفیرِ مذہب کے مقدمات میں بند ہیں اور یا پھر ماورائے عدالت قتل کردئیے گئے۔ معاشرتی و مذہبی تعصب اور اخلاقی گراوٹ کا جن ابھی تک قابو میں نہیں آسکا۔ بین الامذاہب کوششیں، اور اس سے متعلق معاشرتی آگاہی کے لئے سیمنیارز، مذاکرے اور کانفرنسیں کار گر ہوتی نظر نہیں آرہی ہیں۔معاشرتی سوچ اور رویوں میں تبدیلی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ابھی تک کُچھ معلوم نہیں۔
ہفت روزہ اخبار،”کہانت“ کراچی کی وساطت سے گذشتہ ہفتے سیالکوٹ کے علاقہ کھروٹا سیدہ میں ایک مسیحی خاتون اسٹیلا بی بی کے خلاف توہین قرآن پاک کا مقدمہ درج کروایا گیا ہے، اور اسی ضمن میں ملزمہ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح کہ ایک مذہبی تعصب اور ذاتی عناد پر مبنی ایک ناخوشگوار خبر لاہور سے رپورٹ ہوئی جہاں قاری کلیم اُللہ نامی شخص نے لاہور کے ایک مسیحی نوجوان راسٹن صابر کے خلاف توہین رسالت کا جھوٹا مقدمہ دائر کرنے کی درخواست دی ہے(کہانت نیوز، کراچی)۔
مذہبی تعصب اور معاشرتی عدم برداشت پر مبنی وقوع پذیر ہونے والے یہ سانحات اور ان میں ہونے والی مسیحی افراد کی ہلاکتوں پر ہر مسیحی اور حساس پاکستانی کرب اور افسوس کا اظہار کررہا ہے اور اپنے ہی ملک میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ نامور مسیحی مصنف اور دانشور، کئی تصانیف کے خالق محترم اعظم معراج کا ایک کُھلا خط جو کہ چند برس قبل یومِ پاکستان پر ڈی پی او، گجرات کے نام لکھا گیا تھا، اس سے ایک اقتباس مُلاحظہ ہو؛
”……ہمیں اپنے معاشرے کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی مسیحی، دھرتی کا بیٹا ہے یعنی پاکستانی مسیحی 1973ء کے مُتفقہ آئین کی رُو سے صدر اور وزیرِ اعظم کے عہدے کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ہے بھی۔یعنی دھرتی کا بیٹا ہے، آزادیِ سندھ و ہند کا سپاہی بھی ہے، قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم کا ہمراہی بھی ہے، تعمیرِ پاکستان میں قوم کا معمار بھی ہے، معلم بھی ہے، مسیحا ہے، چیف جسٹس بھی ہے، وزیر بھی ہے، سفیر بھی ہے اور ایسا سفیر جو ہماری ایٹمی پالیسی کے اوّلین معماروں میں سے ہے۔ آئی جی بھی ہے تاریخ دان بھی ہے، شاعر بھی ہے، مصور بھی ہے، کھلاڑی بھی ہے، گلوکار ہے، وکیل ہے، فلمساز ہے، اداکار ہے، صدا کار ہے۔سرحدوں کا محافظ ہے تو سپاہی سے لے کر جرنیل تک ہے۔ محافظ ہے،غازی ہے، شہید ہے تو ایسا بھی ہے کہ پاکستان ائیر فورس کا واحد ایسا شہید ہے جو دو دو ستارۂ جرات کا حامل ہے۔نشانِ حیدر حاصل کرنے والوں کا ساتھی بھی ہے۔ ستّر شہیدوں کا وارث ہے اور صفائی کرنے والا بھی ہے……ہزاروں سال سے تاریخ کے جبر نے یہ پیشہ اِن دھرتی واسیوں کے مقدر میں لکھ دیااور اس پیشہ سے وابستہ افراد کو چوڑا، چمار، بھنگی اور نہ جانے کن کن ناموں سے پُکارا جاتا ہے……جو معاشرے کی ظاہری صفائی سُتھرائی کرتا ہے اور اِسی نے اس پیشے کو گالی بنادیا۔“
آج مسیحی پاکستانیوں کو درپیش مذہبی تعصب اور عدم برداشت کے چیلنجز پر بات کرتے ہوئے راقم اُن مفاد پرست اُمراء و سیاست دانوں کے رویوں پر غور کرتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیسے پاکستانی ہیں یہ، جوکماتے اپنے مُلک میں ہیں جمع دوسرے ممالک میں کرتے ہیں۔جن کی اولاد تعلیم بیرون مُلک حاصل کرتی ہے اور حُکمرانی کے خواب یہاں کے دیکھتی ہے۔اشرافیہ کا یہ طبقہ جب بیمار پڑتا ہے تو سرکاری مراعات پر علاج بیرون مُلک کرواتا ہے۔اِن لوگو ں کا موازنہ جب محبِ وطن مسیحی پاکستانیوں سے کیا جائے تو حالات یکسر مُختلف ہیں۔مسیحی طبقہ خود کو فخر سے پاکستانی کہتا ہے۔ اپنی تما م تر ذہنی و فکری اور جسمانی توانائیوں سے مُلک کی بہتری کے لئے زندگی کے مُختلف شعبہ ہائے زندگی میں مصروفِ عمل نظر آتا ہے۔ پھر بھی مذہبی تعصب کی بنیادوں پر انہی کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔جھوٹے تکفیرِ مذہب کے الزامات اور پھر مقدمات میں پھنسا کر اکثریتی طبقہ اپنے مفادات حاصل کر تا ہے۔مُلکِ خُداداد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز زیادہ تر افرادمسیحی تعلیم گاہوں سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔دوسروں کے لئے مسیحائی کے فرائض انجام دینے والے مسیحی پاکستانی جب اپنے دُکھ اور تکلیف میں سرکاری ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں تو صرف مذہب کی بنیاد پرجلاد ڈاکٹرز اور اُن کا عملہ وحشیانہ تشدد کرکے اِن کو اس دُنیا سے رُخصت کردیتا ہے۔ ملکی تاریخ کے وہ سیاہ اوراق ہیں، جہاں یہ ایسے واقعات رقم ہیں کہ جھوٹے مذہبی تکفیر کے الزام میں مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلا دینے والے اکثریتی طبقے کے افراد محض عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کردئیے جاتے ہیں۔اسکول میں تشددسے ہلاک ہونے والے طالب علم کی ہلاکت کا ذمہ دار ہم جماعتی کو صرف اس لئے بری کردیا جاتا ہے کہ مقتول کے ورثاء غُربت و افلاس کی وجہ سے کیس کی پیروی کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان تما م پُرتشدد، وحشیانہ اور دل خراش سانحات کے شکار مسیحی متاثرین کے لئے سیاسی راہنماؤں کی ہمدردیاں، مذمتی اورسطحی اعلانات کی حد تک ہی دیکھے گئے ہیں۔ اگرچہ تمام سیاسی راہنما اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے حصول اور بحالی کے لئے مسیحی برادری ہمیشہ آگے آگے رہی ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کے غلط استعمال سے اکثریتی طبقے اور مذہبی شدت پسندوں کوغیرمسلم پاکستانی شہریوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن اس ضمن میں موئثر عملی پالیسیوں کے فقدان اور اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے پھر اس طرز کے واقعات رُونما ہوتے ہیں، جیسے کہ ماضی میں پیش آئے اور اس سے قبل بھی وعدے کرکے ایسے واقعات میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک نہ پہنچا کر باربار ایسے عناصر کو مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کی آڑھ میں اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ اس ضمن میں جہاں وقوع پذیر ہونے والے ایسے سانحات میں بے گناہ مسیحی پاکستانی شہریوں کی ہلاکت پر تما م مسیحی قوم اَفسردہ اور دل گیر ہے۔ وہیں حکومتِ وقت اور ذمہ دار اداروں کو بھی اس معاشرتی عدم برداشت، مذہبی تعصب اور اخلاقی ناہمواری کی فضا پیدا کر نے والے عناصر کی حو صلہ شکنی کرنا ہوگی۔معاشرہ کو نفسیاتی اور اخلاقی طور پر احترامِ انسانیت کا درس دینا ہوگا اور اس ضمن میں مذہبی عُلماء اور راہنماؤں کو معاشرہ کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اربابِ اختیار کو سوشل میڈیا میں مذہبی اشتعال انگیز لٹریچر کی تشہیر کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا۔اگر خلوصِ دل سے مُثبت اور تعمیری اقدامات کے ذریعے منفی رویوں پر قابو پا لیا جائے تو پاکستانی معاشرے میں موجودہ بے چینی اور غیر یقینی صورتِ حال کا خاتمہ کرکے امن و آتشی اور بھائی چارے کو فروغ دینا ممکن ہوگا۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******