نسخۂ نیم شب : آصف عمران

میں ڈاکٹر کے کلینک سے باہر نکلا تو محسوس ہوا کہ جس طرح موسم خزاں میں درختوں کے پتے جھڑنے سے پہلے رنگ بدلنے لگتے ہیں، کچھ پتے ابھی سبز ہوتے، کچھ زردی مائل سبز اور کچھ زرد ہو کر زمین پر گرنے لگتے ہیں اسی طرح میرے جسم کے شجر سے صحت کے پتے وائرل انفیکشن کی ہواؤں سے متاثر ہو کر کچھ کمزوری اور دردکی حالت میں اور کچھ بخار کی تپش کی تیزی سے مرجھا کر گر رہے ہیں اورمَیں نڈھال ہو کر دو دِن سے بیماری کے بستر پر پڑا ہوں۔ دراصل یہ سب کیا دھرا تین دن پہلے ہونے والی پارٹی میں شمولیت کا نتیجہ ہے۔ جہاں کئی لوگ کھانسی اور چھینکیں مارتے ہوئے دوسرے لوگوں کو پریشان کر رہے تھے اور اکثر لوگوں نے چہرے پر ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے جن میں مَیں بھی شامل تھا اور اب نتیجہ بھگت رہا ہوں۔ آج اپنی بیگم شہناز کے اصرار پر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔ رات کا اِبتدائی حصہ مریضوں کی انتہائی بھیڑ کھا گئی۔ چیک اَپ کے دوران ڈاکٹر کی باتوں کی مسلسل دھار سے میری سماعتوں کی رگیں زخمی ہو کر تڑپ رہی تھیں۔ چہرے پر حیرت اور سراسیمگی اور خوف کی فصل اُگ رہی تھی۔ میری پریشانی کے باوجود ڈاکٹر کا لہجہ مجھے مایوس نہیں کر رہا تھا بلکہ میری تھکن اُتار کر اپنے لہجے کی چاشنی کے ذریعے بڑی آسانی سے حوصلہ اور بیماری سے لڑنے کی جرات عطا کر رہا تھا۔ گھر واپس پہنچا تو رات کے نو بج رہے تھے۔

دُھند بھری رات کا اِبتدائی حصہ خاصا پریشان کن تھا۔ مَیں جسم میں درد، تھکاوٹ اور بخار کی تیز تپش سے ہارے ہوئے جسم کے ساتھ بستر پڑا بوجھل آنکھوں سے چھت کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں حیرتیں — کانوں میں مانوس آوازوں کی چاپ اور ذہن میں کہانیوں کے خاکے —- چہرے پر اُلجھی ہوئی نثری نظمیں اور زبان پر غزل کے اشعار —- اور دوسری طرف میز پر کلیاتِ فراز کی موٹی کتاب پڑی تھی۔ شام کے کھانے میں شہناز نے چکن سوپ اور دلیہ پیش کیا تاکہ دوائیں لینے سے پہلے پیٹ خالی نہ ہو اور معدے میں کچھ طاقت دواؤں کی ہم رکاب ہو۔ آدھے گھنٹے بعد چھ سات گولیاں ایک ایک کر کے حلق کے راستے معدے میں اُتاریں اور پھر بیگم کا حکم ہوا کہ آرام کریں۔ مگر میری طبیعت میں بے چینی اور جسم میں درد اور بخار کی تپش بڑھنے لگی۔ اُس نے تھرمامیٹر لیا اور حرارت ماپی تو بخار ایک سو تین تھا۔ بعض اوقات ایلوپیتھک دوائیں مریض سے قصاص بھی طلب کرتی ہیں۔ پھر چھینکوں کی بدلیوں نے مجھے گھیر لیا۔ نزلہ زکام، کھانسی اور چھینکوں کی رم جھم شروع ہو گئی اور فضا جل تھل ہو گئی۔ جسم درد سے ٹوٹنے لگا۔ اُس کی پریشانی بڑھاتی جا رہی تھی کہ اتنی دواؤں کے باوجود بخار کم کیوں نہیں ہو رہا۔ شہناز نے پریشان ہو کر میری بہن ثریا کو فون کیا اور کہا کہ گاڑی لے کر آ جائے۔ تمھارے بھائی کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔ اُس نے بتایا کہ وہ تو ابھی ابھی ایک مشاعرہ پڑھ کر آ رہی ہے۔ میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگی: اچھا بھابی میں آتی ہوں —- آپ تیاری کریں۔

میں نے شہناز کو کہا کہ اُس نے ایسے ہی ثریا کو فون کر دیا ہے۔ وہ الگ پریشان ہوگی۔ اس طرح کرو کہ تم شفیق بیٹے سے بات کراؤ۔ وہ امریکہ جا کر فون کرنا ہی بھول گیا ہے۔ اُس سے بات چیت کر کے دل بہل جائے گا۔ ویڈیو کال کرنا۔ پوتے کو دیکھ کر طبیعت خود ہی سنبھل جائے گی۔ آج ہفتہ ہے۔ دفتر میں چھٹی ہے اور وہ گھر پر ہی ہو گا —- شہناز نے دو تین بار کوشش کی مگر اُس کا نمبر نہ مل سکا —- ہم دونوں مایوسی کی دلدل میں دھنس گئے۔ اس لمحے بیٹے کی دُوری نے شدت سے احساس دلایا کہ ہم تنہا رہ گئے ہیں۔ بچوں کے پیسے کمانے اور اچھے مستقبل کے خوابوں کا اپنا ہی رومانس ہوتا ہے۔ سندر دھوپ میں چل رہے ہوتے ہیں کہ اچانک جذباتی رشتوں کے بادل کا ٹکڑا پردہ کھینچ کر سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے کہتا ہے کہ رُکو —- وہ پوچھتے ہیں کیا ہوا —- کیا کوئی خوشی کا انوکھا منظر یا غمی کا کوئی حادثہ ہے —- وہ رُک جاتے ہیں —- کچھ عرصہ بعد دھیرے دھیرے بادل کا ٹکڑا راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ سامنے کا نظارہ پریشان کر کے پچھتاوے کا احساس دلاتا ہے کہ ہم گزرے وقت میں پیچھے رہ جانے والوں کو آنسوؤں، تنہائی اور لمبی جدائی کی برسات میں بھیگنے کے لیے اکیلے چھوڑ آئے ہیں جہاں زندگی میں لمبی اُداسی اور طویل خاموشی انھیں گھیر لیتی ہے۔ سب مجبوری کے خاموش رشتے ہیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک گہری خاموشی کی چادر کمرے میں تن گئی۔ کمرے کے ماحول میں سکوت ہی سکوت ہے۔ جو پُرسکون نہیں بلکہ کرب انگیز ہے۔ زندگی کے سارے ہنگامے ہمارے لیے خاموش تھے اور مانوس آوازیں بے صدا —- آدھی رات کا وقت ہے اور ثریا میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی —- کہنے لگی بھائی اُٹھیں ہسپتال ایمرجنسی میں چلتے ہیں۔ وہ انجکشن لگا دیں گے تو آپ ٹھیک ہو جائیں گے —- ثریا کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہم کس جذباتی حادثے سے گزر چکے ہیں۔ میں ہسپتال کے لیے راضی نہ ہوا کہ رات کے اس پہر یہ دونوں عورتیں کہاں ہسپتال کی ایمرجنسی میں دھکے کھاتی پریشان پھریں گی۔

میں نے بڑے اچھے ڈاکٹر سے دوائی لی ہے۔ کچھ دیر میں آرام آجائے گا۔ تمھاری بھابی نے ایسے ہی تمھیں پریشان کیا ہے۔ میں نے اسے تسلی دی۔ دونوں نے اصرار کیا کہ ہسپتال چلتے ہیں مگر میں سختی سے اپنے فیصلے پر قائم رہا۔ بستر کے پاس کھڑے کھڑے ثریا کی نظر کلیاتِ فراز پر پڑی تو اُسے اُٹھا کر صفحے پلٹنے لگی —- تم آج کے مشاعرے کی روداد سناؤ —- ثریا نے میری طرف غور سے دیکھا کہ اچانک ہی غیب سے ایک خیال اُس کے ذہن میں اُترا اور بولیں، بھائی جان آپ کی طبیعت ٹھیک ہو جائے تو آپ کے گھر میں مشاعرہ رکھ لیتے ہیں۔ میری ایک دوست شاعرہ امریکہ سے آئی ہوئی ہے اُس کے اعزاز میں —- خوش ہو جائے گی۔ ویسے بھی آپ کے گھر میں ادبی نشست اور مشاعرہ منعقد کیے ہوئے خاصی دیر ہو گئی ہے —- بیماری کے بستر پر لیٹے ہوئے ثریا کی بات سن کر میں حیران بھی ہوا مگر میرے کان کھڑے ہو گئے اور فوراً پوری آنکھیں کھول کر اُس کی طرف دیکھا اور اُٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی —-
بیوی تیزی سے آگے بڑھی اور بولی، نہیں —- اُٹھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بھی حیران ہوئی کہ اتنے تیز بخار میں بھی مشاعرے کا سن کر اُٹھنے لگے ہیں جیسے ہائی پوٹنسی کا انجکشن لگا ہو —- آپ لیٹے رہیں۔ مشاعرہ کہیں بھاگا نہیں جا رہا —-

تم ثریا کی بات سنو —- وہ کیا کہہ رہی ہے۔ میں نے شہناز کی غصہ بھری نظروں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ بھابی میں کہہ رہی تھی کہ میری ایک شاعرہ دوست امریکہ سے آئی ہوئی ہے تو اُس کے اعزازمیں ایک مشاعرہ رکھ لیتے ہیں۔ آپ گھبرائیں نہیں میں سب انتظامات کر لوں گی۔ دیکھا آپ نے کہ مشاعرے کا نام سنتے ہی بھائی کی آنکھوں میں صحت کی چمک جاگ اُٹھی ہے اور طبیعت بحال ہونا شروع ہو گئی ہے۔ مشاعرے تو ہماری لائف لائن ہیں۔ اب تو پوری زندگی ہی مشاعرہ ہو کر رہ گئی ہے۔ ثریا نے کتاب میز پر رکھتے ہوئے کہا، چلیں ٹھیک ہے اِن کی طبیعت سنبھل جائے تو اگلے ہفتے کی کوئی تاریخ رکھ لیتے ہیں۔ شہناز نے یکایک میرے چہرے کی منتشر خیالی بحالی میں تبدیل ہوتی دیکھ کر کہا، میرے چہرے پر مسکراہٹ کے چھوٹے چھوٹے پھو ل کھلنے لگے۔ اس مشاعرے میں کچھ نئے دوستوں کو بھی مدعو کریں گے اور ہاں صدارت تو ایوارڈ کمیٹی کے کسی ممبر سے ہی کرائیں گے تاکہ کمیٹی کو پتہ چلے کہ ہم اُردو ادب کی کتنی خدمت کر رہے ہیں۔

اگر شعراءکی لسٹ ابھی بنا لیں تو کیسا رہے گا تاکہ لوگوں کو وقت پر دعوت دی جا سکے۔ ثریا نے کہا۔ بیوی نے دوائی کی بات کی تو میں نے کہا کہ ابھی ٹھہرو —- پہلے یہ کام کر لیں —- ایک کپ کافی نہ ہو جائے —- پھر تو طبیعت بالکل بحال ہو جائے گی —- میں نے شہناز کی طرف دیکھ کر کہا۔
اچھا —- میں کافی لے کر آتی ہوں —- وہ کچن کی طرف جانے لگی تو میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہا تم یہاں ثریا کے ساتھ بیٹھ کر لسٹ بناؤ —- کافی میں بنا کر لاتا ہوں۔ تمہیں پتہ ہے کہ میں کتنی اچھی کافی بناتا ہوں۔ مگر تمہاری طبیعت —- ٹھہریں —- پہلے بخار چیک کر لیں۔ وہ تھرمامیٹر اُٹھانے کے لیے میز پر جھکی۔ میں اگر کافی مانگ رہا ہوں تو سمجھو کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لاؤ تھرمامیٹر بخار چیک کر ہی لیتے ہیں۔ میں نے تھرما میٹر بغل میں لگایا۔ میرے دل میں تو یہ سوچ کر خوشی کے شادیانے بج رہے تھے کہ بہت جلد نوجوان شاعرہ گلشن آراءسے ملاقات ہو جائے گی۔ پچھلے مشاعرے میں تو وہ سامنے بیٹھی تھی تو میری نظریں گلشن آراءکے کانوں کی بالیوں میں جھولا جھولنے لگی تھیں۔ بالیوں سے نظریں چراتا تو آنکھ خودبخود اُس کے ماتھے پر گرنے والی لٹ سے گلے ملنے لگتی تھی۔ دوسرے لوگوں کی نظروںسے بچتا ہوا اپنی آنکھ کو بالوں کی لٹ سے آزاد کراتا تو اُس کا چہرہ مجھے اپنی گرفت میں لینے کو تیار ہوتا اور پھر چہرے سے نظریں پھسل کر اُس کے نرم ہونٹوں پر آنے والی مسکراہٹ کے ترنم سے سرشار ہونا شروع کر دیتیں کیونکہ وہ اپنا کلام ترنم سے سناتی تھیں۔ اُس کی نازک کلائیوں میں پڑی رنگ برنگی چوڑیوں کی کھنک پچھلے زمانے کی کسی دیوی کی گنگناہٹ لگنے لگتی اور میں اس گنگناہٹ کو اپنے دل کی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ محسوس کرنے لگتا۔ کبھی اُس کے قدموں کی دھمک میری زندگی کے سینے پر پھول کھلاتی اور پائل کی جھنکار ان پھولوں پر شبنم گراتی محسوس ہوتی —- وہ سراپا غزل شعر شعر ہو کر میرے ذہن میں جذب ہونے لگی تھی —- میں اُس کے سراپا میں کھویا ہوا تھا کہ شہناز نے کہا تھرمامیٹر بغل سے نکال کر دیکھیں —- تھرمامیٹر کی ریڈنگ پڑھ کر خوش ہو گئی کہ بخار سو سے نیچے آ گیا تھا۔ میں اُٹھ کر کچن میں چلا گیا اور وہ دونوں لسٹ تیار کرنے لگیں۔ میں تین مگ کافی کے لے کر آیا تو شعراءاور شاعرات کی لسٹ تیار ہو چکی تھی جو ہر لحاظ سے میعاری اور متوازن تھی۔ میں نے اپنے ایک ناراض دوست کو راضی کرنے کے لیے اُس کا نام بھی مہمانِ خصوصی کے طور پر شامل کرایا اور ساتھ ہی نئی نسل کی اُبھرتی خوبصورت نمائندہ شاعرہ گلشن آراءکا نام بھی مہمان خصوصی کے لیے پیش کیاتو بیگم کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات اُبھرے۔ غصے سے کہنے لگی ہاں ہاں —- اُس کے بغیر تو مشاعرہ مکمل اور کامیاب ہی نہیں ہو گا ناں —- ہمارا کیا ہے ہم تو صرف واہ واہ کرنے کے لیے رہ گئے ہیں —- بھابی گلشن آراءاچھی شاعرہ ہے۔ ہمارے گروپ کی خاص ممبر ہے۔ ہمیں نئی نسل کے اُبھرتے ہوئے شعراءاور شاعرات کو پروموٹ کرنا چاہیے —- آپ کافی انجوائے کریں اور کافی کا مگ ان کی طرف سرکا دیا —- میں خاموش رہا ورنہ میری آواز اُس کے غصے کی آگ پر تیل کا کام کرتی —- اور پھر تینوں کافی انجوائے کرنے لگے —- کمرے کا ماحول بہتر ہو چکا تھا۔
تاریخ اور دِن کون سا ہو گا —- ثریا نے پوچھا۔۱۵-اکتوبر بروز ہفتہ ٹھیک رہے گا۔ اُس دن ہماری بیگم کی سالگرہ بھی تو ہے —- میں نے بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا —- اچھا تو آپ کو میری سالگرہ یاد ہے —- جی ہاں —- یوں آنے والے مشاعرے کے لیے فضا انتہائی سازگار ہو گئی تھی۔

اچھا بھائی میں چلتی ہوں۔ میرا نسخہ ء نیم شب خاصا کارگر ثابت ہوا ہے۔ اب آپ آرام کریں اور وہ گاڑی کی چابی پکڑ کر کمرے سے نکل گئی۔ بیگم نے ایک بار پھر بخار چیک کیا تو بالکل نارمل تھا۔ کھانسی اور چھینکوں اور درد کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا۔ میں آنکھیں بند کرکے گلشن آراءکی موجودگی کے تصور میں کھونے لگا۔ اس طرح مشاعرے کے فیصلے اور مہمانِ خصوصی کی آمد کے خیال نے میرے اندر رات کا پورا چاند طلوع کر دیا اور میں چاندگی کی پھوار میں پُرسکون گہری نیند سو گیا —- یہ جو محبت شاعری کی ہے —- نہ ہوتی ہے نہ کی جاتی ہے بس —- خودبخود ہی جنم لیتی ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading