ہمارے گناہ کی گہرائیوں میں وہ ڈوب گیا، ہماری کمزوریوں کے لئے کوڑے اپنے جسم پر کھائے، ہمارے فخر کے لئے دُعا کی۔ جو خون اس نے صلیب پر بہایا وہ ہماری روح کو زندہ کرتا ہے۔ یسوع نے اپنی رحمت میں غضب کا وہ پیالہ پیا جو ہمارے ہونٹوں کا مقدر تھا۔ عاجزی سے وہ سب کچھ لے لیا جس کے ہم مستحق تھے، یہاں تک کہ ہمارے جیسے ہی انسان نے ایک بوسہ کے ساتھ اس کی کی قسمت پر مہر لگا دی۔ یسوع نے درد کو ایک مسئلہ نہیں سمجھا کہ آسمان کے تخت کی حفاظت کے لئے آسمانی طاقت سے نمٹا جائے، بلکہ اپنے آپ کو ایک خادم کے طور پر پیش کر دیا تاکہ صرف گناہ کی قیمت ادا کرسکے۔ ہم ایک ایسے بادشاہ کی خدمت نہیں کرتے جس نے جنگ کی ایک جھلک نہ دیکھی ہو، لیکن جس نے صلیب کی فرنٹ لائن پر لڑائی لڑی تاکہ ہم اسے “ابا، باپ” کہہ سکیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہماری آنکھوں کے آنسوؤں کوپونچھتا ہے۔
اس نے صلیبی سفر میں محبت کی خاطر لوہے کے کوڑے کھائے، کانٹوں کا تاج پہنا اور دنیا کے گناہ کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ آپ اس کے بارے میں کیا جانتے ہیں کہو، لیکن صلیب آپ کو یہ کہنے سے روکتی ہے کہ وہ آپ سے محبت نہیں کرتا ہے۔ لیکن صلیب کا سفر اور اس کی موت محبت کے سفر کا خاتمہ نہیں تھا۔ یہ آغاز تھا۔ گناہ کی سرحد سے ایک پگڈنڈی نکلی، لیکن راستہ اب بھی ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ ہماری اپنی صلیب اُسے اُٹھانے اور لے کر چلنے کا انتظار کرتی ہے۔ ہمارا اپنا جسم صلیب پر چڑھائے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔ جب وہ پکارے گا تو کیا تم اس کی پیروی کرو گے؟ مصلوب ہونا محبت کا سب سے بڑا فلسفہ ہے جسے دنیا کبھی بھی جان نہیں سکے گی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس نے اپنی جان نہیں دی کہ ہم اُس کے عمل کو نظر انداز کردیں، تاکہ ہم اسے لینے کے لئے ایمان تلاش کرسکیں۔ یسوع ہمیں ہر روز شاگردی کے لیے بلاتا ہے۔ صلیب کا تماشائی بننا کافی نہیں ہے۔ کیا ہم اس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہیں؟ کیا ہم ایمان کے ذریعے اپنی بساط میں قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں؟
لیکن ہم یسوع کے صلیبی سفر پر اُس کے ساتھ نکلے ہیں یا اپنے ہی ایک دوسرے پر تنقیدی سفر پر گامزن ہو گئے ہیں۔ روزوں کے ایام شروع ہوتے ہی ہم فیس بک اورمیڈیا پر اپنی دوکانیں کھول بیٹھے ہیں کہ راکھ کا بدھ بائبل کے مطابق نہیں! کہ چالیس روزوں کا کوئی حکم نہیں! جوں جوں یسوع صلیب کے نزدیک پہنچتا جائے گا ہم ایک دوسرے پر تنقید کرتے جائیں گے کہ یسوع کا سفر اس راستے سے تھا، کوئی کہے گا کہ یسوع نے شارٹ کٹ راستہ لیا۔ کوئی ابھی سے کہہ رہا ہے کہ ایسٹر منانا بدعت ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ مبارک جمعہ غمی کا دن نہیں بلکہ خوشی کا دن ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ ایسٹر کی چھٹی ہونی چاہیے اور بونس تنخواہ ملنی چاہیے، کیونکہ یہ مسیحیوں کا تہوار ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ رمضان بازار کی طرح چرچ بازار لگنے چاہیں۔ کوئی کہ رہا ہے ہم ایونجیلیکل ہیں وہ کیتھولک، اور وہ دور کھڑا بھائی مشن کا ہے۔ بس اپنی اپنی دوکان! اگر ہم واقعی یسوع کے صلیبی سفر پر اُس کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی دوکانیں بند کرنا ہوں گی اور یسوع کے صلیبی راستے کو صاف کرنا ہوگا اور ساری تجاوزات کو گرانا ہوگا تاکہ اُس کے ساتھ سفر کرنے والوں کو راستہ مل سکے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یسوع یہ کام خود کر لے گا جبکہ اُس نے صلیب پر جان دینے سے چند دن پہلے ہیکل کی تجاوزات گرا دیں تھیں۔
آئیے! ہم یہ عہد کریں کہ روزوں کے دنوں میں اپنی کلیسیائی دوکانیں بند کر کے یسوع کے صلیبی سفرپر اُس کے ساتھ چلنے کی تیاری کریں، ایسا نہ ہو کہ ہم بھٹک کر کسی اور سفر پر چل پڑیں۔ شکریہ
*******