فرمانِ خداوندی ہے کہ ”میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں۔“
ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ ”میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں۔“ میرا ایمان ہے کہ خدا کا پاک روح ہر بشر میں کام کرتا ہے خواہ وہ اس پاک روح سے واقف نہ ہوں یا اسے تسلیم نہ کرتے ہوں۔میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہر کام کے لیے خدا کی جانب سے ایک وقت مقرر ہے۔مکرم پادری اِمام دین شہبازؔ کی شخصیت اور کارناموں سے کون واقف نہیں اور بالخصوص متحدہ ہندوستان اور اب پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش بل کہ جہاں جہاں اور جب جب خدا کا پاک و پوتر نام لینے اور مقدس محفل منعقد کرنے کا خیال،تصور اور ارادہ طے پاتا ہے تو پرستش کے لیے دیگر گیتوں اور روحانی ترانوں کے ساتھ ساتھ زبور(پنجابی زبان) بھی بڑی شد و مد سے گائے جاتے ہیں۔ زبوروں کے ذریعہ پرستش کا رواج اور رجحان کسی ایک کلیسیا پر موقوف نہیں بل کہ یہ تو اِنجیلی حکم ہے ۔
مقامی ایمانداروں کے لیے اس حکم کی تعمیل و تکمیل کو ممکن بنانے کے لیے مکرم پادری امام الدین شہباز صاحب کا احسان ہے کہ انہوں نے خدا کے فضل اور اس کے پاک روح کی عطا کردہ نعمت وحکمت سے زبوروں کو مقامی اور عوامی زبان اور راگوں میں منتقل کیا۔ منتقلی کا یہ عمل جسے ترجمہ بھی کہتے ہیں آسان کام نہیں جب تقاضہ یہ بھی ہو کہ متن بھی متاثر نہ ہو اور اس کی روح بھی قائم رہے۔عروض کی جکڑن اور الفاظ، متبادلات و مترادفات کا چناؤا ور بُنت بھی جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا، مگر آفرین ہے صد آفرین۔
محترم پادری شہبازؔ کی اس پرواز پر اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا؛
محو ِ حیرت ہے ثریا رفعتِ پرواز پر
نطق کو سو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر
میں واپس اپنے مذکورہ بالا بیان کی جانب چلتا ہوں کہ یہ بھیڑ(پادری امام الدین) کسی اور بھیڑ خانہ کی تھی،اس بھیڑ نے اپنے چرواہے(خداوند یسوع مسیح) کی آواز سنی اور اس کے پیچھے چل دی اور وہ اچھا چرواہا اسے اس ندی (کلام مقدس) کے پاس لے آیا جس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوتے اورجس کی کنارے لگے پیڑ خود بھی شاداب رہتے اور دوسروں کو بھی اپنے پھلوں سے فیض یاب کرتے ہیں۔یوحنا اصطباغی کے لیے خدا نے بزرگ کاہن ذکریا کونوید دی اور نام مقرر کیا بعین پادری صاحب کے والدین کو بھی تحریک بخشی کہ وہ نومولود کا نام اِمام دین رکھیں۔وہ نہیں جانتے تھے کہ پاک روح کی ہدایت سے رکھا ہو یہ نام، وقت کے پورا ہونے پر کتنے ہی مسیحی دین داروں کی امامت کرے گا۔ ہمارے محسن۔ پادری اِمام دین شہباز ؔ ڈی ڈی! تجھے سلام۔
(اقتباس : ماہنامہ “نیاتادیب” لاہور/ ملتان، مارچ 2020، صفحہ نمبر 26)
https://www.facebook.com/media/set/?set=a.2983521761686470&type=3
*******