پاک وہند کےبکھیڑوں کی صدائےبازگشت ؛وادیءکشمیر سےفلسطین تک : گمیلی ایل ڈوگرہ

گزشتہ دنوں کیپیٹل ٹاک شو میں حامد میر نے خواجہ آصف وفاقی وزیر دفاع سے کہا کہ نریندر مودی وزیر اعظم بھارت منتخب ہونے پر شہباز شریف نے مبارک باد کیوں دی؟خواجہ آصف نے کہا کوئی محبت نامہ تو نہیں لکھ دیا وہ تو ایک ڈپلومیٹک ریکوائرمینٹ ہے، آگے جا کر دیگر اعتراضات بھی اُٹھائے گئے جس پر خواجہ صاحب کو شو میں اتفاق بھی کرنا پڑا۔
حامد میر کالم نگار اور کہنہ مشق صحافی اور اینکر اپنے ایک کالم ”بکرا چور“ 13جون 2024 میں لکھتے ہیں کہ ”عید قربان کے قریب آتے ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بکرا چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہم نےایک مذہبی تہوار کو بھی لوٹ مار کا سنہری موقع بنا دیا ہے۔پاکستان میں اسلام کا وہی حال کردیا ہے جو جمہوریت کا ہےہمارے بزرگوں نےایک طویل سیاسی جدوجہد کے ذریعے یہ ملک اس لیے بنایا تھا کہ یہاں ہمیں آزادی ملے گی اور ہم اپنے اپنے عقیدے اور روایات پر آزادانہ عمل کریں گے۔افسوس کہ ہم نے اس ملک میں پہلے تو سیاست کو ایک گالی بنایا اور پھر عقیدےکو نفرتیں پھیلانے کے کاروبار میں تبدیل کر دیا“
قارئین76 سال کی پاک وہند کی درد بھری داستان میں مذہب کمیونٹیز کا غلط استعمال جس میں مذاہب کو شر پسند عناصر کے در پے اور پشت پناہی کے تحت انسانوں اور انسانی نسلوں سے مذاہب کی اخلاقی قدروں کے تحت تعلیم و تربیت اور معرفت کی پریکٹس کی بجائے مذاہب کے غلبے اور جبر کے تحت انسانوں کی تذلیل کی ہے جس کی کوئی بھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔
ان حالات میں خطے کی ترقی پسند اور روشن خیال تحریکوں کو بھی روکا گیا اور سیکولر اور کیمونیسٹ نظریات کی بیداری کو مذاہب سےگمراہی اور تصادم کے تاثر کے ساتھ پیش کیا اور کمزور مذہبی اقلیتوں کی آواز دبائی جس کی تصدیق ہیومن رائیٹس آرگنائزیشنز اور کشمیر میڈیا سیل بی بی سی لندن اور دیگر میڈیا ہمیں آگاہ بھی کرتا رہا۔
مذہبی دہشت گردی اور جبر کے تحت قتل و غارت میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور یہ سلسلہ پاکستان اور انڈیا میں ابھی عروج پر ہے عورتوں کی تذلیل عصمت دری عقوبت خانوں میں جسمانی تشدد قید و بند نسل کشی انسانوں کااستحصال وغیرہ وغیرہ کیونکہ دونوں ریاستوں کے اشرافیہ مہاتماگاندھی اور محمد علی جناح کی عطا کی ہوئی آزادی اقلیتوں کو فراہم کرنے کی بجائے جبر کے درپے مسلمان ،ہندو، سکھ، مسیحی و دیگر مذہبی کمیونٹیز پاک و ہند میں نسل در نسل تقسیم ہند یعنی بٹوارے کے وقت 1947 کے بعد انگریز کے باقی ماندہ نو آبادیاتی اور تربیت یافتہ اشرافیہ کے درپے پس گئے ہیں اکثریتی مذہبی کمیونٹیز انسانی واخلاقی قدروں کو مسلسل پامال کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم بھی آتے ہیں صدر بھی آتے ہیں آرمی چیف بھی آتے ہیں اس میں پیرا شوٹرز کو بھی باہر کے اشاروں سے موقع میسر آجاتا ہے لیکن مثبت خیال کے تحت پچھلے 76 سالوں سے گاندھی اور جناح کی مثبت اور حقیقی سوچ کو عملی جامہ پہنانے اور اُن کے سیاسی فلسفے پر عمل کرنے کا بھرم رکھنے والا کوئی لیڈر نہ آسکا۔
قارئین دنیا بدل چکی ہے اور گلوبل ولج کی شکل اختیا کر چکی ہے کسی بھی کمزور مذہبی کمیونٹی پر جبر اور استحصال کے تحت مستقل اسیری قائم رکھنا اور اس پر غلبہ رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو مسیحی کمیونٹی سپورٹ نہ کرتی تو دو قومی نظریے کی شکست برصغیرکی مسلمان اقلیت کے لیے بہت بڑی شکست تھی۔ علیحدہ خطہ کبھی بھی ان کو ملنے والا نہ تھا کیونکہ مسلمانانِ ہند کی بہت بڑی تعداد نے تحریک پاکستان سے اتفاق ہی نہیں کیا اور اوپر سے مذہبی جماعتوں نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت کی اور تمام مذہبی اقلیتوں کو ساتھ لے کر قائد اعظم نے انہیں برابر کے حقوق دینے کےساتھ پاکستان کی جو تصویر بنا کر خوبصورت رنگ بھرا تھا ہم نے اس تصویر کو ہی ختم کرکے اپنے اپنے غیرمنطقی اور عملی طور پر ناگزیر حربوں اور طور طریقوں سے کمزور مذہبی کمیونٹیز کا گلا کاٹا ہے اور ان کا حق مارا ہے اور اس کی تذلیل کی ہے۔ ہمارے پاک و ہند کے بانی جناح اور گاندھی ہمارے عقائد کے مطابق ہمیں مسجد مندر جانے کی آزادی دیتے ہیں پھر اس میں مضائقہ کیا ہے؟ اسی طرح انڈیا بھی گاندھی کے وچار سے گھن کھانے والے مذہبی ہندو کمیونٹی کے بڑوں نے کمزور کمیونٹیز کے استحصال سے آگے سوچنے کا کوئی مثبت اقدام اُٹھائے ہی نہیں۔ مسیحیوں اور مسلمانوں کی بستیوں پر جلاؤ گھیراؤ کیوں ہو رہا ہےشاید ہم نےنسل در نسل انسانیت کی تذلیل کی تربیت نسل در نسل پائی ہےاور اس پر غور نہیں کیا۔
مقبوضہ کشمیر اس کی بہت بڑی مثا ل ہے۔جس میں انڈیا کا اشرافیہ آزادی کے متوالوں کا قتل عام کا بازار 76 سالوں سے گرم کیے ہوئے ہے۔تازہ خبر ہے کہ سابقہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بھارت کے وزیر اعظم کو تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے پر حلف اٹھانے پر اپنی نیک خواہشات اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”حالیہ انتخابات میں آپ کی پارٹی کی کامیابی آپ کی قیادت پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہے انہوں نے کہا کہ آئیں نفرت کو امید سے بدلیں اور جنوبی ایشیا کے دو ارب لوگوں کی تقدیر بدلنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں“(جاوید چوہدری ڈاٹ کام) ۔
انہوں نے بڑی محبت سے باہمی نفرتوں کو محبت میں بدلنے کا سندیسا بھیجا ہے واہ کیسا موقع ہے؟ اور کیسی بات ہے؟ میاں محمد نواز شریف کے اس نیک جذبے کے لیے ہم انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ کاش نریندر مودی وزیر اعظم بھارت بھی میاں محمد نواز شریف کے اس جذبے کا قدر دان ہو اور دونوں ملکوں کے تمام سٹیک ہولڈرز اکٹھے ہو کر اپنی چھوٹی مذہبی کمیونٹیز کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی کے تحت ان سے محبت کرتے ہوئے ان کی آزادی ان کو دے دیں اور مقبوضہ کشمیر ایشو پر مل کر ایک دوسرے کے حقوق و مطالبات کے تحت گاندھی اور جناح کی آزادی ان کو عطا کریں اور دونوں ملکوں میں انسانیت اور انسانی قدروں کی بحالی ہو جائے اس خطے میں وسائل کی کوئی کمی نہیں صرف بنگلہ دیش کی طرح مثبت سوچ کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں کی جمہوری قیادت کا بڑا اچھا رول رہا ہے کیونکہ اُن کے پیچھے کوئی اشرافیہ نہ تھا جو ان کو ڈی ٹریک کرتا۔
ہم بات فلسطین کی آزادی کی کریں اور ہمارا اپنا گھر ہی فلسطین بنا ہوا ہے، کس منہ سے ہم بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔بین الا اقوامی سطح پر ہمیں یو این او جانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔اگر ہم مذہبی ہم آہنگی کے تحت اپنی مذہبی کمیونٹیز کو اقتدار کی حوس سے ہٹ کر اگر ہم غریب عوام کے مرض کی دوابن جائیں تو ہم ترقی بھی کریں گے اور خطے میں امن بھی ہوگا اور ہمارا اگلا مطالبہ فلسطین کی آزادی ہو سکے گا۔
ہم جناح گاندھی کے حقیقی پیرو کارہو کر اُبھریں گے اور یہ سب مذاہب کی اخلاقی قدروں کو فالو کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ورنہ رسمِ دنیا اور ڈپلومیٹک فارمیلٹی کی سلام یا مبارک باد دیتے ہوئے اور لیتے ہوئے ہم فلسطین کا کیسے سوچیں گے؟ کیونکہ ہم ہمارا گھر ہمارا خطہ تو متنازعہ ہے اور ہماری دونوں ریاستوں میں ہماری مذہبی کمیونٹیز کو مستقل خانہ جنگی کا سامنا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں مسیحی کمیونٹیز کا اس وقت جینا حرام کیا گیا ہے ہم فلسطین کی آزادی کی کیسے بات کر سکتے ہیں؟ حساس قوانین کے تحت ہجوم کے ذریعے جھوٹے الزام سے پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ پر قانون سازی کی اشد ضرورت ہے ان حالات میں جبر کے خلاف تمام کمیونٹیز کو کھڑا ہونا ہوگا اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی حفاظت غریب عوام کے ذمے ہے۔ کب تک ایک دوسرے کا گلا مذہب کے نام پر کاٹا جائے گا ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے
آدم ہے باپ سب کا تو کیسی تمیز نسل
انسان نہیں الجھتے کبھی ذات پات میں
پاک و ہند دوستی زندہ باد۔۔۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading