ماحولیات اور ادب گزشتہ چند دہائیوں سے بنی نوع انسان کے سامنے ماحولیات کا مسئلہ سنگین شدت کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کے سبب ہوا ، فضا اور زمین کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس نقصان کی زد میں سمندر، دریا، جھیلیں، گلیشیئر اور ندیاں بھی آرہی ہیں اور پرندے، درخت اور دیگر جاندار بھی۔ ادب اور ماحول کا قدیم تعلق رہا ہے۔ نثر اور شاعری میں فطرت اور مظاہر فطرت کا بیان جا بجا ملتا ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے فطرت اور ماحول کو اپنی تخلیقات میں نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ اس کے حسن کے قصیدے بھی لکھے ہیں۔ اب وہی فطرت خود انسان کے ہاتھوں زخم کھا رہی ہے۔ انسان کی صنعتی ترقی نے فطرت اور ماحول کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں ہر انسان بگڑتے ہوئے کی ماحول، آلودگی اور زہریلی گیسوں کے اخراج سے پریشان ہے وہیں شاعر، ادیب اور فنکار بھی پریشان نظر آتا ہے۔ ذاتی حوالوں سے ہٹ کر بھی ادیب کا فطرت سے ایک رومانس ہوتا ہے۔ سائنسی ترقی اس رومانس کو تباہ کر رہی ہے۔ ترقی کرتے رہنا اور ماحول کا تحفظ یقینی بنانا بظاہر دو متضاد معاملات نظر آتے ہیں۔ بعض سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ جس رفتار سے مضر کیمیائی مرکبات اور گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے، اس سے یقینی طور پر زمین اور ماحول زہر آلود ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کہ کسی دن یہ زمین انسانوں اور دیگر جانداروں کی محفوظ رہائش کے قابل نہ رہے۔معروف بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے نے اپنی ایک کتاب میں معدنی وسائل کے بے دریغ استعمال، دریاؤں پر بند باندھنے اور بے تحاشا صنعت لگانے کو انسان کش اقدامات کہا ہے۔
آج کے شاعر اور ادیب کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اپنا قلم استعمال کریں۔ اردو ادب کے تعلق سے کئی ادب میں ماحولیاتی تنقید کے نام سے ایک دبستان وجود میں آ چکا ہے۔ ماحول اور ادب کے حوالے سے کئی جامعات نے مقالات تحریر کروائے ہیں۔ ہمیں ایسے کئی اردو شاعر ادیب ملتے ہیں جو اس موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ کچھ نظمیں بھی لکھی گئی ہیں جو بچوں اور بڑوں میں ماحول سے متعلق آگہی اور شعور بیدارکرتی ہیں۔ تاہم اس سمت میں ہمیں کئی قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہماری انکھوں کے سامنے ہے کہ پاکستان کے بہت سے شہر بلکہ ہمسایہ ممالک بھی ایک عجیب زہریلی ‘سموگ’ (دھند + دھواں ) میں ملفوف ہیں۔ اس نیم تاریک دھویں میں نسل انسانی کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ وہ فطرت جسے شاعر ادیب نے ہمیشہ اپنا محبوب جانا، جس کے قصیدے لکھے وہی دم بہ دم انسان کے ہاتھوں تلف ہو رہی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب انسان اپنی بے لگام صنعتی ترقی پر نظر ثانی کرے اور سادہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کو ترجیح دے۔ گیسیں اور مرکبات جو فضا میں ٹنوں کے حساب سے چھوڑے جا رہے ہیں ان پر پابندی لگائی جائے ۔ بے محابا اور بے لگام صنعتی ترقی کو از سرِ نو دیکھا جائے۔
سائنس اور آرٹس میں ایک نیا ٹکراؤ ناگزیر ہے؟ کیا صنعتی ترقی اور محفوظ ماحول ایک ساتھ ممکن نہیں ؟اب سادہ و روایتی طرزِ زندگی اپنانا ہو گا ورنہ شاید زندگی ہی معدوم ہو جائے۔
ایک نظم “مشینی ارتقا” جو راقم الحروف نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں کہی ہے ملاحظہ کیجیے؛
ستارے بجھتے جاتے ہیں
رخ مہتاب میلا ہے
افق پر گرد اڑتی ہے
شفق کا رنگ کالا ہے
دھنک کے سرمئی گھونگھٹ سے
ساتوں رنگ مدھم ہیں
فلک کے نیلگوں چہرے پہ اک مٹیالی چادر ہے
تپش خورشید میں ایسی
زمیں کی مانگ اجڑی ہے
گلوں کے رنگ پھیکے ہیں
صبا کی چال بوجھل ہے
ہوا خوشبو سے خالی ہے
مشینی کالکوں نے اک ردائے تار ڈالی ہے
ہماری صبح کالی ہے، ہماری شام کالی ہے
کثافت روک لو، اس سے
ہوا کی سانس رکتی ہے
فلک کی سمت دیکھوں تو مری آنکھیں سلگتی ہیں
زمیں کی گود میں لیٹوں ۔ ۔ ۔مگر رخسار جلتے ہیں
مرے آگے دُھندلکا ہے
ذرا تم دیکھنا ہم دم !۔
مشینی ارتقا ہم کو یہ کس منزل پہ لے آیا!۔
۔۔۔۔شہزاد نیرؔ
*******
Thanks for publishing my writing on Literature and environment .
Shahzad Nayyar