دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالے کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا ( اظہر فراغ)
بھروسا وقت کی دستک کا نام ہے جس کے اثرات و ثمرات لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کثرت سے جڑے ہوتے ہیں۔ہر زمانے کی اپنی رُوداد ہوتی ہے جو اس کے تاریخی، ثقافتی ،تہذیبی اور سماجی پہلوؤں کو اُجاگر کرتی ہے ۔اظہر فراغ نے اپنے اس شعر میں ہماری توجہ اس جانب مبذول کروائی ہےاور ماضی کے جھروکوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔یہاں یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ ہر اِنسان اپنے ماضی کو کیوں یاد کرتا ہے؟ آخر اس میں کون سے اعتبار کے زاویے تھے جن پر لوگ بھروسے کی بنیاد رکھتے تھے ۔ان کی زبان و بیان میں کس قدر مماثلت و پختگی ہوتی تھی جو اُنہیں ٹس سے مس نہیں ہونے دیتی تھی ۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ موسم اور رُتیں بدلتی گئیں ۔انہیں گچھوں کی گرہیں لگتی گئی اور نتیجتا بھروسے کو اندر ہی اندر دیمک لگتی گئی۔ اعتبار کا موسم خزاں میں تبدیل ہوتا گیا ۔وقت کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات نے جنم لے لیا ۔لوگ ایک دوسرے سے اُلجھنے اور بکھرنے لگے۔لیکن اس امر کے باوجود بھی نہ اس کی جڑیں کٹیں اور نہ سوکھی ۔آج بھی دنیا میں گھر ، ممالک کا لین دین ، تعمیر و ترقی ، رشتے ناطے ، بھروسے کی بنیاد پر ہی رکھے جاتے ہیں ۔لیکن بغاوت کے جراثیم کسی وقت بھی حملہ کر سکتے ہیں ۔فطرت میں بگاڑ پیدا کرکے اُسے آلودہ بنا سکتے ہیں ۔جو لوگ اپنے آپ کو جھوٹ کے پر لگاتے ہیں۔ ان کے پَر ہوا کے جھونکوں سے بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں شارق کیفی کا ایک شعر دیکھیے؛
جھوٹ پر اس کے بھروسہ کر لیا
دُھوپ اتنی تھی کہ سایہ کر لیا
زندگی میں کبھی ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ انسان جھوٹ کو سچ سمجھ کر اس پر بھروسا کرتا ہے ۔اس کی آب و ہوا قلب و ذہن پر ایسے خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے کہ انسان اس فضا میں سانس بھی لیتا ہے اور روزمرہ زندگی کے مشاغل بھی ترتیب دیتا ہے جو اُسے جھوٹ کی دُھوپ سایہ فراہم کرنے لگتی ہے ۔لیکن اگر بھروسا کے حقیقی معنوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھروسا زندگی کا سب سے خوب صورت اور قیمتی زیور ہے جس کی چمک کبھی ماند نہیں پڑتی۔
اس کی شروعات اپنی ذات سے ہی کرنی پڑتی ہے تاکہ دوسرے آپ کی زندگی کی حقیقت سمجھ پائیں کیونکہ سچ اور کھوٹ الگ الگ باٹ ہیں البتہ پلڑا بھاری سچ کا ہی ہوتا ہے۔
بھروسا انسان کی سرشت کی پہچان کی واحد کسوٹی ہے اور اس کی قدر و قیمت مرجان جیسی ہوتی ہے۔ یہ دراصل آفاقی صداقت ہے جس کے داخلی دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔اور جب کسی چیز کا دروازہ بند نہ ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ جب چاہیں اندر باہر آ جا سکتے ہیں یعنی آپ کو اعتماد کا ووٹ مل جاتا ہے۔ آپ کے لیے راستے کا چناؤ آسان ہو جاتا ہے نہ ٹھوکر کا ڈر اور نہ ہی دہشت کی آہٹ کا خطرہ ہے بلکہ یہ سکونِ قلب کا بہترین ٹانک ہے جس سے سانسوں کی روانی بہتر رہتی ہے ۔لیکن اس میں ایک بات توجہ خیز معاملہ ہے کہ اسے اپنی ہی ذات و عرفان میں تلاش کرنا پڑتا ہے ۔کیوں کہ یہ ہمارے باطن میں چھپا موتی ہوتا ہے۔ اگرچہ ہماری آنکھیں اسے دیکھ نہیں پاتی شاید مصنوعی چیزوں کی کشش اصل حقائق کو چھپا لیتی ہے ۔بھروسا ایک فطری حقیقت ہے جس کے پیچھے انسان بھاگ رہا ہے ۔شاید کبھی یہ راستہ انسان کو اجنبی سا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی قیمت ایمانداری سے چکانی پڑتی ہے اور بعض اوقات اکثر لوگ تنگ نظری اور تعصب کا شکار ہو کر بکھر جاتے ہیں۔اگر اس چیز کا حقیقی اور بے باکی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشکل وقت میں انسان کا سب سے پہلے ہمدرد بنتا ہے۔انسان کے ساتھ زندگی کی ہرمشکل میں یہ سب سے پہلے کھڑا ہوتا ہے ۔ اس کی پکار میں طاقت کا اتنا راز ہے کہ یہ انسان کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتا ۔
اس کا احساس دوسرے کی روح کو تازہ ہوا کے جھونکے جیسا معلوم ہوتا ہے جو زندگی میں بہار جیسے موسم لے کر آتا ہے۔ اس کی خُوش بُو دُور فضاؤں میں زندگی کا تصور لے کر بکھرتی ہے اور دوسروں کے نتھنوں کو اپنی خُوش بُو کا احساس دلاتی ہے۔
خاں آرزو سراج الدین علی کا شعر دیکھیے؛
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسا ہے
اگر زندگی کے فطری تقاضوں کو پرکھا جائے تو اس کے اعتماد کی شہ رگ کٹی نظر آتی ہے اور جب کسی شے کی شہ رگ ہی کٹ جائے تو وہاں زندگی کی اُمید باقی نہیں رہتی ۔لیکن جب تک زندگی کی اُمید باقی رہتی ہے اس وقت تک انسان کی زندگی میں پھول اور کلیاں دِل کو تر و تازگی کا احساس دیتی ہیں۔ ویسےیہ بھروسا ہمارے اعمال و کردار کو پختہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بھروسااپنی ہیت و حرکت میں ایسا کمال درجہ رکھتا ہے۔ کبھی یہ انسان کو اپنا اور کبھی غیر بنا دیتا ہے۔
عموماً ہماری زندگی میں اندھیرا اس وقت شروع ہوتا ہے۔ جب دوسرے اپنی ذات سے بدظن ہو جائیں تو پھر یقیناً ہوا کا رخ بدل جاتا ہے ۔ لیکن ہواؤں کا رخ تبدیل کرنے کے لئے ایک مضبوط دیوار کی ضرورت ہوتی ہے اور اس دیوار کا نام اعتماد ہے جس کو کھڑا کرنے کے لئے محنت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ اعتماد کی دیواربن جاتی ہے تو اس پر خواہ آندھیاں چلیں یا طوفان آئیں پھر وہ دیوار کبھی بھی مسمار نہیں ہوتی۔
یقین کیجیے ہماری دوستی رشتے ناطے سب بھروسے کی شہ رگ پر آکر ملتے ہیں۔غوروخوض کیجیے بھروسے کی عمارت اپنے ہی ہاتھوں سے تعمیر کرنا پڑتی ہے۔ اگر خدانخواستہ اپنے ہاتھ آلودہ ہو جائیں تو اُنہیں دُھونے کے لئے بیگانے کی مدد پڑھ سکتی ہے۔ اس بات کا خمیازہ بھگتنے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی ذات و عرفان کی خود ہی تعمیر کر لے کیوں کہ بھروسا ہمارے اعتماد کی شہ رگ ہوتا ہے۔ آخر میں احمد فراز کا یہ شعردیکھیے؛
دِل کو تِری چاہت پہ بھروسا بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
*******