باپ نہ جانے کیا چیز ہے! : سموئیل کامران

داؤد بادشاہ اور یواب میں بحث چھڑی کہ باپ بچوں سے زیادہ پیار کرتا ہے کہ ماں۔ داؤد کی رائے تھی کہ ماں جبکہ یواب کے خیال میں باپ۔
یواب داؤد بادشاہ کا بھانجا تھا۔ ضرویاہ (داؤد کی بہن) کا بیٹا تھا۔ یواب کے بھائی ابھیشے اور عسائیل تھے۔ یواب ساری زندگی داؤد کے ساتھ وفادار رہا ماسواۓ ادونیاہ کے بادشاہ بنتے وقت۔ اور اسی سبب ہلاک کر دیا گیا۔
داؤد اور یواب ملک میں گشت کر رہے تھے۔ ایک غریب خاندان دیکھا۔ باپ سخت محنت کرکے آٹھ لڑکوں کےلئے کماتا مگر پورا نہ پڑتی۔ یواب نے ماں سے کہا کہ دو بیٹے مجھے فوج میں بھارتی کرنے کےلئے دے دے۔ یہ دونوں فوج کا کھائیں گے اور تمہیں گھر چلانے کے لئے رقم بھی ملے گی۔ ماں نے کافی سوچ کر ہاں کر دی۔ باپ کو پتا چلا تو وہ طیش میں آ گیا۔ یواب کی دی گئی رقم اور تلوار لیکر یواب کے پاس آیا۔ جب یواب نہ مانا تو وہ غریب آدمی مرنے مارنے پر اتر آیا۔ داؤد بادشاہ نے کہا،” اب میں مان گیا کہ باپ کی محبت ماں سے بڑھ کر ہے۔
زبور103 کی کل 22 آیات ہیں۔ پہلی 12 آیات داؤد نے لکھیں مگر کچھ علماء کا خیال ہے کہ آخری 10 آیات یواب نے لکھی ہیں۔
باپ کی محبت آئس برگ جیسی ہوتی ہے۔ اوپر سے جتنا نظر آتا ہے، نیچے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی جوانی، طاقت، صحت، دھن دولت سب کچھ بچوں پر وار دیتا ہے اور اس کے عوض کچھ نہیں مانگتا۔ مندر میں دھری مورتی کی مانند، سب اپنی اپنی سنا کر چلے جاتے ہیں، اس کی کوئی نہیں سنتا۔ سمندر کی طرح خاموش اور پر سکون مگر اتھاہ گہرا۔ جو دے دو، جتنا دے دو کھا لیتا ہے۔ نہ کوئی شکوہ نہ گلہ۔ خاندان کا کاہن ہوتا ہے مگر قربانی اپنی دیتا ہے۔ ہمارے آسمانی باپ نے بھی ہمارے (جہان کے) گناہوں کی قربانی اپنے بیٹے کی موت سے دی۔ خداوند نے انسان سے رشتہ داری رکھنی چاہی تو باپ بننا پسند کیا۔
“باپ، نہ جانے کیا چیز ہے”
،جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے
ویسے ہی خداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading