بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو ۔۔۔۔ (غلام محمد قاصرؔ)
یہ شعر صرف ایک شاعرانہ خیال نہیں، بلکہ ایک اجتماعی خواب اور سماجی ضرورت کا اظہار ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ علم، شعور اور کتابیں ہی وہ طاقت ہیں جو کسی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تاریخی طور پر متعدد عوامل نے سماج کو متاثر کیا ہے، وہیں جنگ باز بیانیے بھی اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں ۔ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہم کسی ملی نغمے کا تصور بھی نہیں کر سکتے جس میں توپوں طیاروں کی گھن گرج شامل نہ ہو۔
خالص اور حقیقی ادب کا کردار ہمیشہ امید، روشنی اور بہتری کی راہ ہموار کرنے والا رہا ہے۔جہاں ریاستی بیانیہ اکثر و بیشتر سیکیورٹی اور جدال کو مرکزیت دیتا رہا ہے وہیں پاکستانی ادب میں جنگ، تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف مزاحمتی بیانیہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ حبیب جالب کہتے ہیں؛
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
“بارود کے بدلے کتاب” کی خواہش دراصل اسی مزاحمتی ادب کا تسلسل ہے جو بندوق کے مقابلے میں قلم کی طاقت کو زیادہ مؤثر سمجھتا ہے۔
پاکستانی نوجوان نسل کے لیے ادب ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جو انہیں مثبت اور تعمیری سوچ کی طرف مائل کرے۔ اگر تعلیم اور ادب کو فروغ دیا جائے، تو نوجوان نسل کتابوں سے محبت کرے گی، تخلیقی سوچ اپنائے گی اور انتہا پسندی اور عدم برداشت کے بجائے دلیل اور مکالمے کو ترجیح دے گی۔(بشکریہ : ماہنامہ ادبِ لطیف لاہور)۔
*******