صدر ڈونلڈ جان ٹرمپ 2024 امریکی الیکشن کیوں جیتے؟ : ایورسٹ جان

امریکی الیکشن 2024 ساری دنیا کے لئے ایک دلچسپ مکالہ بنا رہا اور آخر کار تمام الیکشن پر تبصرہ کرنے والے پنڈتوں کی پیش گوئیوں کے اوپر نہ صرف پانی پھر گیا بلکہ انکی قیاس آرائیاں خاک میں مل گئیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ باکستان کی طرح امریکن اسٹیبلشمنٹ بھی عوام کی آواز دبانے میں کامیاب ہو جائے گی مگرٹرمپ کی مکمل جھاڑو پھیر جیت نے نہ صرف ریاستی جیت حاصل کی بلکہ دونوں ایوانوں (سینٹ اور ایوان نمائیدگان) میں برتری بھی حاصل کر لی۔ جبکہ امریکی عوام نے سب سے زیادہ ووٹ دے کر امریکہ کے ریاستی الیکش کے نقشے کو سرخ کر دیا۔ ڈونلڈ جان ٹرمپ کی کتاب “سیو امریکہ” 30 ستمبر 2024 کو شائع ہوئی جس میں ٹرمپ ڈاکٹرائین کا خلاصہ کچھ یوں ہے!۔
“صدر ٹرمپ، اپنے الفاظ میں جو اس بات کی بصیرت فراہم کرتے ہیں کہ ان کے اگلے چار سالوں کی تشکیل کیا ہوگی۔ ‘سیو امریکہ’ میں صدر ٹرمپ کے اہم موضوعات اور کامیابیوں کو دکھایا گیا ہے جن میں ریکارڈ توڑ تجارتی مذاکرات، ٹیکس کٹ میں کمی، بین الاقوامی سفارت کاری اور سرحدی سیکیورٹی شامل ہیں۔ طاقتور تصویروں اور تبصروں کا یہ امتزاج ہمارے ملک کے لئے صدر ٹرمپ کے مستقبل کے وژن کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ “سیو امریکہ” واحد کتاب ہے جو ماضی پر روشنی ڈالتی ہے، اور صدر ڈونالڈ جے ٹرمپ سے براہ راست مستقبل کے لئے ایک روڈ میپ پیش کرتی ہے” یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ الیکشن جیتنے کے دوسرے ہی دن صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری کتاب “ڈونلڈ ٹرمپ: دی روڈ ٹو ہیسٹارک سیکنڈ ٹرم” بھی جاری کر دی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ وہ امریکہ کو کس سمت لے کر جانا چاہتے ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کے زیراثر پاکستانی سرکاری میڈیا نے بھی امریکی الیکشن پر بھرپور طبع آزمائی کی اور ٹرمپ کی شکست کا آخری لمحے تک یقین کرتے رہے، وہ یا تو حکومت کے اشاروں پر ناچ رہے تھے یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کا موازنہ پاکسنانی اسٹیبلشمنٹ سے کر رہے تھے، مگر یہ بھول گئے کہ امریکی عوام باشعور ہے (یہ نہیں کہ پاکستانی عوام باشعور نہیں لیکن مجبور ہے)۔ حال ہی میں ایک نیوز اینکر شاہزیب خانذادہ کہ رہے تھے کہ “میں چاہتا ہوں ٹرمپ ہار جائے” عظمی بخاری بولی “میں تو کاملا حارث کو ووٹ دونگی” رانا ثنا الہ اور مریم نواز کا بیان “عمران اور ڈولنڈ ٹرمپ ایک ہی ہیں، دونوں نے ریاستی عمارتوں پر حملے کئے ہیں۔ ایسی ہی باتیں کئی سیاسی عہدے داروں نے بھی اپنی ٹیویٹس اور میڈیا پر آ کر کیں اور اسے سرکاری میڈیا نے بار بار نشر بھی کیا، شائید وہ یقین رکھتے تھے کہ ٹرمپ تو بری طرح ہارا ہی ہارا۔ لیکن اس بات کا انکو یقیننآ خوف تھا کہ ٹرمپ دوبارہ صدر بنتے ہی پاکستان کو عمران خان کی رہائی کے لئے اسٹیبلشمنٹ پر زور دے گا۔ شائید وہ بھول گئے کہ ٹرمپ کو پاکستان کو عمران خان کو رہا کرنے کا کہنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی حکومت اور سٹیبلشمنث جانتی ہے کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد انہوں نے کیا کرنا ہے؟ اور ٹرمپ کیا سوچتا ہے؟ ساری دنیا کے بارے میں اور خاصکر پاکستان کے بارے میں، یہ ایسا نہیں کہ جیسے مریم بی بی کہتی ہیں کہ “ہمیں کوئی امریکہ سے سائفر آئے گا کہ عمران خان کو ہمارے حوالے کر دو”۔ خیال رہے کہ حکومت پاکستان اور انکے پاسبان یہ جانتے ہونگے کہ ڈونلڈ جے ٹرمپ ایک “ضدی” قسم کا انسان ہے۔ اسکی ساری زندگی جدوجہد سے بھری پڑی ہے، کبھی بزنس میں نقصان، کبھی سیکس سکینڈلز کا سامنا، کبھی سیاست میں کیپیٹل ہل والے مقدمات کا سامنا، کبھی میڈیا ٹرائل کا سامنا۔ لیکن ہی سچ ہے کہ وہ اپنی بات منوانا جانتا ہے۔ ٹرمپ کو کبھی بھی جو بائڈن نہ سمجھا جائے جو دوسرے ہی لمحے بھول جاتا تھا کہ اسنے کیا بات کی تھی۔ اس الیکشن ی ایک عجب بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے پورے خاندان نے اسکا ہر مقام پر بھرپور ساتھ دی ہے۔ یہاں تک کہ اسکے بیٹے “ببرن ٹرمپ” 18 سال کی کم عمری میں ہی بیرن ٹرمپ نے اپنے والد کی کامیاب صدارتی مہم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نئی رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے حکمت عملی سازوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی رائے پر بھروسہ کریں جب وہ پوڈ کاسٹ کی فہرست کا جائزہ لیں۔ اور ہی بھی کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کا انتخاب بھی اپنے بیٹے کی سفارش پر کیا ہے۔ یہاں پر ہمیں دنیا کے امیر ترین اور ٹیکنالوجی کے باپ “ایلان مسک” کو سراہنا ہوگا جس نے اپنا سارا کاروبار ٹرمپ کی حمائت میں داؤ پر لگا دیا اور ٹرمپ کے جیتنے کے بعد اعلان کیا کہ” اگر وہ حکومت کی کارکردگی کے نئے محکمے کے حصے کے طور پر انتظامیہ میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں بجٹ میں 2 ٹریلین ڈالر کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑے گا”۔ جی ہاں اگر پاکستان نے بھی ایلان مسک جیسی شخصیات سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے تو انہیں ٹرمپ کے ذہن کے مطابق چلنا پڑے گا۔
ڈونلڈ جان ٹرمپ کے لئے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انٹرنیشنل مسائل کا حل تلاش کرنا بہت بڑا چیلنج ہوگا جس میں اسرائیل اور غزہ، حماس، حسب اللہ کا مسلہ اور روس یوکرآئن کا مسلہ سر فہرست ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں مڈل ایسٹ کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا لیکن اپنے پہلے چار سالوں کے دوران ، ٹرمپ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کرکے تاریخ رقم کی ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین “صدی کی ڈیل” کرنے کی کوشش کی ، یہودی ریاست کے علاقائی انضمام کو مضبوط کیا ، اور ایران پر دباؤ میں نمایاں اضافہ کیا۔ جبکہ ٹرمپ کو “ابراہیمی محائدے” کا بانی سمجھا جاتا ہے تو شائید وہ دوبارہ اسی سمت چلے لیکن اسکے پہلے دور کے بعد کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور لگتا ہے کہ اس دورمیں ٹرمپ کو اسرائیل کو اب جنگ بندی اور غرہ کی بحالی کے لئے نتن یاہو کو ٹف ٹائم دینا پڑے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ لیکن ممکن نہیں کہ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ پالیسی میں کوئی فرق آئے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ ایران کس طرح مڈل ایسٹ میں پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ نے واضع طور پر کہا ہے کہ وہ کوئی نیا محاذ نہیں کھولے گا بلکہ پہلے سے کھلے محاذوں کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کوشش کی اسنے روس اور یوکرائن کی جنگ بندی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اب ایک اربن میتھ جو عام طور پر مشہور ہو جاتی ہے جسے اکثر امریکی صدر سے منسلک کیا جاتا ہے کہ اگر امریکی صدر ریپبلکن پارٹی سے جیسے صدر ٹرمپ ہے تو اسے دنیا پر “مسیحیت کا غلبہ” تصور کیا جاتا ہے۔ یقین کریں کہ یہ تصور بالکل غلط ہے۔ امریکہ نے پہلے ہی “فرسٹ ایمنڈمنٹ” کے ذریعے کسی بھی مذہب کو حکومت سے علیحدہ کر دیا تھا اور اسی ایمنڈمنٹ کی آڑ میں مسیحیت کے نشانوں کو حکومتی اداروں سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے علاوہ مسیحیت میں دنیا پر حکومت کرنے یا “مسیحیت غلبہ” کا نظریہ ختم ہو گیا، اور یہاں تک کہ مسیحیت میں “جسٹ وار” جسے کسی زمانے میں چرچ درست سمجھتا تھا اب عرصہ دراز سے مسیحیت سے ختم کر دیا گیا ہے، مسیحیت کا بڑا پیغام “امن کا غلبہ” ہے نہ کہ جنگ کے ذریعے امن حاصل کرنا۔ ہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ امریکن مسیحیوں یا دنیا کے دوسرے ممالک کے مسیحیوں نے اکثر ریپبلکن امیدوار کا ساتھ بھی دیا اور انکے لئے دعائیں بھی مانگی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسیحیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ دیا اور بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشنز کا رخ کیا۔ اسکی ایک اور خاص وجہ یہ بھی ہے کہ دوسری پارٹی ڈیموکریٹس نے ہمیشہ مذہب خلاف ایجنڈے کا ساتھ دیا ہے جس میں اسقاط حمل کی اجازت اور انکے کلینکس کو ٹیکس سے امداد، ہم جنس پرستی کی اجازت، مرنے کے لئے انجیکشن کی اجازت، میرا جسم میری مرضی کی اجازت، سیم سیکس شادی کو “میاں/بیوی” قرار دینا، آپریشن سے جنس تبدیل کرنے کی اجازت، میوٹیشن کے ذریعے ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس تبدیلی کی اجازت جیسے گھناونے گناہ شامل ہیں جسکی کوئی مذہب اجازت نہی دیتا۔ یہ کوئی مذہبی بات نہیں بلکہ خدا کی بنائی ہوئی قدرت میں مداخلت کے برابر ہے۔ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک خاصکر برطانیہ میں کس چرچز بھی شیطانی گروپ “المیوناٹی” نظریات کے زیر اثر آ گئے ہیں اور وہ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں المیوناٹی نظریات کواپنا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکن مسیحی یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ریپبلکن صدر کو ووٹ دیا جائے تاکہ انکی آواز قانون کے ایوانوں میں سنی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اکتوبر کے الیکشن میں ریپبلکن پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے اور اب ٹرمپ کے لئے آسان ہوگا کہ وہ مسیحیت کا رجحان رکھنے والے ججوں کا انتخاب کر سکے۔
منتخب صدر ذونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر ڈی جے وینس 20 جنوری 2025 کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے اور اورواشنگٹن ڈی سی کا “وائٹ ہاوس” دوبارہ سے ان دونوں کا استقبال کرے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے دنیا کی آنکھیں ہمیشہ امریکہ کے صدر پر لگیں رہتی ہیں، کوئی بھی وجہ کیوں نہ ہو، اسی لئے امریکن کہتے ہیں “گاڈ بلیس امریکہ”۔ خدا کرے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور دنیا میں امن لے کر آئے اور واشنگٹن ڈی سی کا “وائٹ ہاوس” دنیا کے لئے “لائٹ ہاوس” بن جائے۔

نوٹ: ”تادیب“کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب“ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading