حادثہ : آصف عمران

ڈُوبتے سُورج کے شرمسار چہرے سے پھُوٹتی زرد دھُوپ کی کِرنوں کی چادر ایک پرت کی صورت کھُلی ہُوئی تھی۔کُہر آلُود چوٹیوں اور دھُند میں لِپٹی گھاٹیوں سے گزرتے ہُوئے وہ دونوں مسافر سدُوم ؔ بستی کی جانب جا رہے تھے۔ ڈھلوانوں پر لڑھکتی ہُوئی شام تیزی سے تاریکی کا لِباس پہن رہی تھی۔ وہ جلد از جلد بستی میں پہنچنا چاہتے تھے جہاں چوک میں لوگوں کا ہجوم معمول سے ہٹ کر زیادہ ہی موج مستی میں مشغُول تھا۔ بادلوں کی دھُند کے اُس پار سے تیز ہواؤں کے ہاتھوں سے پھسلتی ہُوئی آگ کی بارش کے سب منظر اُن دونوں مسافروں کی آنکھوں میں تیزی سے اُتر رہے تھے۔ مگر سوال سفر کی مشکلات اور اندیشوں کا نہیں بلکہ بالآخر اُن کو اُس بستی میں تو پہنچنا ہے۔۔۔!
وہ چوک میں پہنچے تو لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ہجوم میں سر گوشیوں کی بھِنبھناہٹ چاروں طرف پھیلنے لگی۔چوک میں کھڑے وہ دونوں اپنی ہی دُنیا میں گُم ہیں۔۔۔ایسی دُنیا جو سمُندر کی مانند وسیع ہے،شاید جِس کا دُوسرا کِنارا ہوتا ہی نہیں۔ وہ اپنے دِل کے آئینے میں سارے لوگوں کی تصویر یں دیکھ رہے تھے۔ وہ ِجس طرف بھی نِگاہ اُٹھاتے اًس طرف کے لوگوں کے باطن کے درواز ے کھُل جاتے اور اُن کے اندر کی ساری حقیقتیں قِطار اندر قِطار بے نِقاب ہو جاتیِں۔ لوگوں کے سیاہ اعمال کو دیکھ کر اُن کے صبر کا پیالہ لبریز ہو رہا تھا۔ عورتوں سے فِطری تعلق کی بجائے اُن کی آپس میں حرام کاریوں اور گُناہوں کی سیاہی کے بادل آسمانوں تک پہنچ چکے تھے اور اُس وقت یہ سارے لوگ اِن دونوں مسافروں کو چاروں طرف سے گھیرے ہُوئے ہیں۔
دِل کی آواز سُن کر تب بزرگ لُوطؔ اپنے گھر سے نکلا اور ہجوم کو چیرتا ہُوا چوک کی طرف بڑھنے لگا۔ راستے میں رُکاوٹ بننے والے ہجوم کو کبھی دائیں ہاتھ سے اور کبھی بائیں ہاتھ سے ہٹاتا ہُوا آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ کئی لوگ تو اُس کو دیکھتے ہی راستہ
چھوڑ دیتے تھے۔ مگر کئی لوگوں کو اُسے دھکے دے کر راستہ بنانا پڑ رہا تھا۔ وہ معصوم اور نیک مسافروں کو اِن لوگوں کی حرامزدگی سے بچانا چاہتا تھا۔ اور جب وہ اُن کے پاس پہنچا تو اُنہوں نے اُس بزرگ کو غور سے دیکھا اور اُس کے من کی نیکی کو دیکھ لی اور پھر کہنے لگے۔اَے نیک مرد!۔۔۔یہ گمراہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ اِن سے نیکی کی کوئی توقع نہیں ہے۔۔۔تُم اِن لوگوں میں کیسے رہتے ہو؟۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ مَیں اپنے چچا ابرامؔ کے ساتھ اپنے وطن سے نکل کر مُلکِ کنعانؔ میں آیا۔ مگر وہاں اِتنی گنجائش نہ تھی کیونکہ ہمارے پاس اِتنا مال مویشی تھا کہ اِکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ پھِر ہمارے چرواہوں کے درمیان جھگڑا ہُوا۔۔۔
تب ابرامؔ نے مجھ سے کہا کہ میرے اور تیرے درمیان۔۔میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہُوا کرے سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔۔۔تب مَیں نے یردنؔ کی ساری ترائی کو اپنے لئے چُن لِیا اور وہ مشرق کی طرف چلا اور ہم ایک دوسرے سے جُدا ہو گئے۔ مَیں نے سدُومؔ اور عمُورہؔ کی بستی میں اپنا ڈیرالگایا۔۔۔اور اب یہاں دو بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ رہ رہا ہُوں۔مگر ایک بات یاد رکھو کہ یہاں کے لوگ نہایت بدکار اور گُنہگار ہیں۔۔۔ایک مسافر نے اُسے بتایا۔۔۔ہاں مَیں جانتا ہُوں۔۔۔اِسی لئے یہاں آیا ہُوں۔ یہاں زیادہ دیر ٹھہرنا آپ لوگوں کے لئے اچھا نہیں ہے۔ شام ہو چکی ہے، اب آپ میرے مہمان بن کر میرے گھر آئیں تاکہ مَیں آپ کی خِدمت کر سکُوں۔۔۔
اُس نے مسافروں کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ گھر لے گیا۔۔۔چاروں طرف ایک شور اُٹھا۔ بے ترتیب قطاروں میں بھگدڑ مچ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مکانوں کے دروازے تڑپ تڑپ کر بند ہونے اور کھُلنے لگے۔ ساری چھتیں، منڈیریں، ہراساں آنکھیں بن گءِیں۔ ہجوم حیران ہُوا اور غُصے میں شور کرنے لگا کہ وہ کیسے ہمارے شِکار کو اپنے گھر لے گیا۔ وہ یہاں رہنے کے لئے آیا تھا اب ہم پر حکومت جتاتا ہے۔۔۔وہ اِتنے خوبصورت نوجوان۔۔۔کہ جِن پر نظریں نہیں ٹھہرتی تھِیں کیا وہ اکیلا ہی اُن کے ساتھ سکون سے سوئے گا۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا۔ ہوس کا سیال مادہ اُن کے وجود کی ندی نالیوں میں بہنے لگا۔ اُن راستوں پر چلتے ہُوئے ذہن جذبات کی بھٹی میں سُلگنے لگتا ہے۔ ہڈیاں بھُر بھری ہونے لگتی ہیں اور جِسم ذرہ ذرہ ہو کرتسکین کی ہوا میں بکھرنے کے لئے بیتاب ہوجاتا ہے۔۔۔اِنہی خیالوں میں گُم وہ پھِر چوک میں جمع ہونے لگے۔ اُن کی ہوس کی بدبُو چاروں طرف پھیلنے لگی۔ وہ بزرگ کے گھر کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔اور گھر کے اندر موجود مردو زن کے کان ہر آہٹ کو اپنی سماعت کے پردے میں چھپانے کے لئے بیدار آنکھوں سے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
رات بے حد تاریک ہوتی جارہی تھی اور لوگ اُس گھر کے سامنے اِکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ تب بستی کے تمام مردوں نے اُس گھر کوگھیر لِیا اور مُنہ زور لوگوں نے لُوطؔ سے مطالبہ کِیا کہ اِن دونوں خوبصورت مہمانوں کو اُن کے حوالے کر دے تاکہ وہ اُن کے ساتھ صحبت کریں۔ تب وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور پیچھے سے دروازہ بند کر دِیا۔ مگر وہ مہمان گھر کے اندر دروازے کے ساتھ کھڑے رہے تاکہ سُن سکیں کہ کیابات ہوتی ہے۔اُس نے ہاتھ اُٹھا کر لوگوں سے کہا کہ میری بات سُنوں۔۔۔وہ نوجوان میرے مہمان ہیں اور اِس وقت میری پناہ میں ہیں۔ مَیں اُن کوتُمہارے حوالے نہیں کر سکتا۔ تُم ایسی بدی تو نہ کرو۔۔۔دیکھو میری دو بیٹیاں ہیں جو مرد سے ناواقف ہیں۔۔۔تُمہاری مرضی ہو تو مَیں اُن کو تُمہارے پاس لے آؤں اور جو تُم کو بھلا معلوم ہو اُن سے کرو۔۔۔مگر لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔۔۔تُم اِن کو کیسے پناہ دے سکتے ہو؟۔۔۔تُم تو خُود پردیسی ہو،یہاں قیام کرنے آئے تھے اور اب حکومت جتاتے ہو۔۔۔ تُم پیچھے ہٹ جاؤ ہم دروازہ توڑ کر اُن نوجوانوں کو پکڑیں گے۔ وہ آگے بڑھنے لگے تو مہمان نوجوانوں نے تھوڑا سا دروازہ کھولا اور اُسے اندر کھینچ لِیا اور دروازہ بند کر دِیا۔پھِرُنہوں نے اپنی آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھائیں اور مُنہ میں کچھ پڑھنے لگے اور پھِر ہجوم کی طرف مُنہ کر کے زور دار پھُونک ہوا کی چادر پر پھیلا دی تو اُس پھُونک کی مہک نے ہجوم کی آنکھوں کے سامنے تاریکی کا پردہ تان دِیا۔اُن کی آنکھیں بند ہُوئیِں تو وہ اندھوں کی طرح دروازے کی تلاش میں ٹٹولتے ٹٹولتے چاروں طرف پھیل گئے۔۔۔جب آنکھ کھُلی تو دیکھا کہ وہ اپنے گھروں میں پہنچ چکے ہیں۔
تب مہمانوں نے لُوطؔ سے کہا کہ اِن کا جُرم نہایت سنگین ہوچکا ہے۔ ہم تو چاہتے تھے کہ یہاں دس نیک لوگ بھی مِل جائیں تو اِس بستی کو نیست نہ کریں۔۔لیکن یہاں تو ایک بھی نیک بندہ نہیں ہے سِوائے تُمہارے۔۔۔اب تُم اپنے عزیزوں کو ساتھ لواور یہاں سے نکل جاؤ۔ہم اِس مقام کو نیست و نابود کردیں گے۔ مہمانوں نے فیصلہ سُنادِیا۔بزرگ نے چاروں طرف دیکھا اور اُن کے اِصرار پر ہجرت کا فیصلہ کرنا ہی پڑا۔ اُس نے اپنے دامادوں کو کہا کہ چلو یہاں سے نکل چلیں اور میری بیٹیوں کے ساتھ رہو مگر وہ راضی نہ ہُوئے۔ جانے اور نہ جانے کی بحث میں وقت تیزی سے گزر رہاتھااور صبح ہونے والی تھی۔
تب مہمانوں نے اُن کو زبردستی جلدی کرائی کہ اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کو ہی ساتھ لے کر یہاں سے نکل جا۔۔۔اور سُنو!جب یہاں سے نکل کر اُس پہاڑ کی طرف چل دو تو پھِر کوئی پیچھے مُڑ کر نہ دیکھے اور اگر کِسی نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو نمک کا ستُون بن جائے گا۔ اب جلدی سے بھاگ تاکہ تیری جان بچ جائے۔۔۔ہم اَور اِنتظار نہیں کر سکتے۔اور پھِر وہ پَو پھٹنے سے پہلے پہلے اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر اُس پہاڑ کی طرف بھاگنے لگا جِس کی طرف اُسے اِشارہ دِیا گیا تھا۔ اُن کے بستی سے نکلتے ہی وہ مہمان بھی بستی سے باہر آکر دوسری طرف چلنے لگے تو آسمان سے اُس بستی پر آگ اور گندھک کی بارش شروع ہوگئی۔۔۔بڑے بڑے پتھر آگ کے گولے بن کر چاروں طرف سے برسنے لگے۔۔۔تیز گرم ہواؤں نے درو دِیوار گرا دیئے۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ بستی اور ارد گرد کی بستیاں اور ساری ترائی پر رہنے والے سب جاندار نیست و نابود ہو نے لگے۔۔۔تب اُس کی بیوی نے دامادوں کے خیال سے پیچھے مُڑ کر بستی کی طرف یکھا تو اُسی لمحہ نمک کا ستُون بن گئی۔۔۔مگر وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ پہاڑ کی طرف بھاگتا ہی رہا۔۔۔سورج کے طلوع ہوتے ہوتے ہر طرف آگ ہی آگ اور دھُویں کے بادل آسمان کو چھُو نے لگے۔
اور دُور مشرق میں صبح سویرے ابرامؔ اُس جگہ پہنچا جہاں اُس نے دونوں مسافروں کو الوداع کِیا تھا۔ اُس نے سدُومؔ اور عمورہؔ اور اُسی ترائی کی طرف نظر اُٹھائی اور دیکھا کہ وہاں زمین پر سے دھُوں ایسا اُٹھ رہا تھا جیسے بھٹی کا دھُواں۔۔۔وہ لُوطؔ کے لئے پریشان ہُوا مگر پھِر پُر سکون ہو گیا کہ حسبِ وعدہ وہ ضرور بچا لِیا گیا ہوگا۔ چلتے چلتے لُوطؔ کے پیر سُوج گئے۔۔۔سانس پھُولنے لگا۔۔۔تو وہ اُونچی آواز میں پکارنے لگا۔۔۔اَے اُونچے پہاڑو!۔۔اپنا دامن پھیلا کر مجھے پناہ دو۔۔۔مَیں وہ بستی چھوڑ آیا ہُوں جہاں ہر طرف گُناہ ہی گُناہ کی بدبُو پھیل چکی ہے اور اب قُدرت کے قہر و غضب کا نشانہ بنی ہے۔۔اَے خُدا!۔۔پناہ۔۔۔مجھے پناہ دے اور ہمت دے کہ جاہِ پناہ تک پہنچ جاؤں۔۔۔وہ بیٹیوں کو اکیلا دیکھ کر پریشان ہُوا مگر خاموش رہا کیونکہ جانتا تھا کہ نافرمانی کی سزا کیا ہوتی ہے۔
جب اُونچے پہاڑ نے اُس کی لرزتی کمزور آواز سُنی اور اُن کے تھکن سے چُور گرتے پڑتے جِسموں کو دیکھا تو اُسے اُن کی اِس حالت پر ترس آگیا اور ایک غار نے اپنا مُنہ کھول دِیا۔وہ یہاں پہنچتے پہنچتے بہت تھک چکے تھے۔۔۔کِسی نے بھی کوئی بات نہ کی۔ ہر طرف تنہائی۔۔اُداسی۔۔ پہاڑ بالکل خاموش کھڑا رہا اور وہ اُس ماحول کے عادی ہو گئے۔۔۔وہ جب بھی اپنے اپنے شوہروں کے بارے سوچتِیں۔۔۔تو اُن کے اندر کی عورت جاگ پڑتی لیکن یہاں تو کوئی مرد بچا نہیں ہے جو اُن کے پاس آئے اور ہمارے با پ کی نسل آگے چلے۔۔۔
اور وہ بوڑھا جو اُن کو یہاں لے کر آیا ہے وہ غار کے اندر بیٹھا ا پنی بیوی کی یادوں کے سمُندر میں غرق ہے۔۔۔وہ دونوں غار کے مُنہ تک گئیں، ذرا سا رُکِیں اور پھِر واپس آکر بڑے پتھر پر بیٹھ گءِیں۔ بے چینی، بے سکونی اور جذبات کی حِدّت کے اِس عالم میں اُن کی آنکھوں میں اُبھرتے ہُوئے سوال کِسی جواب کی تلاش میں گُم ایک دوسرے کے اندر اُتر رہے تھے۔۔۔خیالوں میں ہلچل مچی۔۔۔ضرورتوں کو پورا کرنے کے نئے نئے زاویئے سامنے آئے۔۔۔اور پھِر دونوں نے ایک دوسری کی آنکھوں کو غور سے دیکھا جہاں نیا پیغام لکھا ہُوا تھا۔ دونوں یکدم غار کی طرف دیکھ کر مسکرائیِں اور خاموش ہو گءِیں۔۔۔گزرتے دِنوں کے ساتھ اُن پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ایک اَن دیکھی آگ اُن کے وجود کو اندر سے جلا رہی تھی۔ جِسم کی رگیں پھُول رہی تھِیں جِس سے گرم جذبات کی بے مُہار دھمال اُن کو مدہوش کرنے لگی تو بڑی بہن بولی۔۔۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمارے مرد بھی آج ہمارے ساتھ ہوتے۔۔۔اب وہ نہیں ہیں تو کیا کریں؟ ایک مرد ہے جو غارکے اندر بیٹھا اپنی بیوی کے غم میں کھویا رہتا ہے۔۔۔اور ہم تنہا تنہا یہاں اِسی غار میں رہ رہے ہیں۔ وہ بھی تو دِن تھے جب زمین پر دونوں بھائی ہابِیلؔ اور قابیلؔ اپنی بہن اقلیماؔ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ اقلیماؔ نے ہابیل کو پسند کِیا اور اُس کی زوجیت میں آگئی مگر قابِیل اپنے بھائی سے حسد کرنے لگا کیونکہ وہ بھی اقلیماؔ کو پسند کرتا تھا۔۔۔وہ آپس میں بحث کرنے لگے کہ کیوں نہ ہم اقلیماؔ کو قتل کر دیں اور دونوں زِندہ رہیں اور آپس میں شادی کر لیں۔۔۔مگر خُدا کو یہ منظور نہ ہُوا کیونکہ اِس طرح تو بغیر اَولاد کے خُدا کا منصوبہ آگے نہ بڑھ سکتا تھا اور پھِر قابیلؔ نے ہابیلؔ کو قتل کر دِیا۔۔۔یُوں زمین پر ایک عورت کے لئے پہلا قتل ہُوا۔۔۔اوراُسی عورت نے بھائی کے قتل کا صدمہ سہنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے چھِن جانے کا غم برداشت کرنے کے ساتھ ہی دوسرے بھائی کے ساتھ زوجیت کا جبر بھی برداشت کِیا۔ ہم تو ازل سے ایک قاتل مرد اور ایک مجبور عورت کی اَولاد ہیں۔۔۔اب ہمیں خُدا کے منصوبے کو تو آگے بڑھانا ہی ہے تاکہ ہمارے باپ کی نسل کا وجود ہی نابُود نہ ہو جائے۔۔۔ہمیں لہُو رنگ جذبات کی خاموشی کی دِیوار کو گراناہی ہوگا۔۔۔تاکہ اندر برپا طوفان کو باہر نکلنے کا راستہ مِلے۔۔۔ اگر یہ بات ہ ے تو پھِر تُمہیں ہی پہل کرنی ہوگی۔۔۔ آج کی رات اپنے مچلتے جذبات کو ٹھنڈک کی کوئی راہ تلاش کرنے دو تاکہ تُم نہال ہو جاؤ۔۔۔ آج تُمہیں اکیلے ہی غار کے اندر جانا چاہئے۔۔۔مَیں باہر کھُلے آسمان کے نیچے تُمہارا اِنتظار کروں گی۔۔۔اور کل تُم اِنتظار کرنا۔۔۔چھوٹی بہن نے دِل کی بات کہہ دی۔شام کے گہرے سایوں کے اُترتے ہی اُس نے اپنے باپ کے لئے خاص کھانا تیار کِیا اور مَے کے ساتھ غار کے اندر چلی گئی اور پھِر گہرے سکوت کی غماز سانسوں کو جھیلتی ہُوئی آگے بڑھی اور جذبات سے لبالب بھرے بدن کے پیالے کو اُس بوڑھے کی گود میں اُلٹ دِیا۔۔۔بے خودی کے اِن لمحوں میں اُس کی کوکھ میں بھڑکنے والی آگ میں بوڑھا درخت بھی جل کر راکھ ہو گیا۔۔۔اور اُس کی آنکھوں میں سے خواہش کے اُبلتے چشمے اُسکے جذبات کو ٹھنڈا کرتے رہے۔ تب وہ اضطراری کیفیت میں جذبات سے خالی جِسم لئے اُس سے الگ ہوگئی۔۔۔ آنے والے دِنوں میں حادثات کی تیزہوائیں چلتی رہِیں تاکہ خُدا کا منصوبہ تکمیل کی طرف بڑھتا رہے۔یہ وسیع دھرتی۔۔۔اور وہ بادل کی دو پیاسی ٹکڑیاں۔۔۔
لڑکیوں کے چہروں پر خُوشی کی لہریں اُبھرتی رہِیں اور ڈوبتی رہیِں۔۔۔وہ مرد اُن کی آنکھوں میں ڈوبتا رہا اور اُبھرتا رہا۔۔۔یہ ازل سے بادل کی پیاسی ٹکڑیاں اور وہ ابد تک اُداس اور مدہوش حالت میں سرگرداں۔۔۔سامنے وسیع دھرتی کا کھُلا میدا ن پھیلا ہُوا ہے جہاں اُن کے بچے کھیلیں گے۔

نوٹ:( “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔تمام حقائق کا مشاہدہ، اعداد و شمار اور معلومات لکھاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔”تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔)

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading