ان دنوں ایک عجیب سی فضا نے جنم لے لیا ہے جو ہر طرف ایک جدائی کا عالم لیے انسان کو انسان سے جدا کرنے پر آمادہ ہے – گلی گلی اور کوچہ کوچہ اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے – جس نے مثبت سوچ اور خیال کو باہر پھینک کر نفرت کا بیج بو دیا ہے- اس بیج کی آبیاری آج کی نسل اپنے من گھڑت اور بے ترتیب خیالوں سے کر کے ایک مضبوط درخت بنا چکی ہے ۔ اس کا پھل ذات پات، اونچ نیچ، غریب امیر، خواہش پرستی، لوٹ مار، تفرقہ بازی اور تو اور اپنی وقعت سے گرا کر بے راہ روی کا شکار کر ڈالا ہے-
اس کا عکس شاید ہم دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں مگر آج نئی شکلوں میں یہ اپنا آپ ظاہر کرنے میں مگن ہے۔ اس کی ایک جدید شکل ” کلچر ” میں عیاں ہو رہی ہے ۔ہر بندہ اپنا ایک علیحدہ کلچر اور قانون لے کر پیدا ہو رہا ہے – ہر ایک بندہ اور ہر ایک خاندان ایک من گھڑت “کلچر” کو فروغ دینے میں مگن ہے۔ اس کے پیچھے اُس اخلاقی اور حقیقی سبق کی کمی ہے جو موجودہ خاندان اپنے بچوں اور نسل انسانی میں منتقل کرنے سے قاصر ہے ۔ صرف بچے پیدا کرنے کا پتا ہے مگر ان کی اخلاقی، جسمانی اور روحانی تربیت کرنے میں ناکام اور بالکل مُردہ نظر آتے ہیں ۔ اوّل تو اس کے بارے رتی برابر پتا نہیں اگر تھوڑا بہت ہے بھی تو وہ بتانے سے قاصر ہیں۔ میرے نزدیک صرف ایک ہی وجہ آج منوں کے حساب سے یہ نئی نسل کلچر اور فیشن لے کر دنیا کا انقلاب لیے گلی گلی اور کوچہ کوچہ کھڑی ہے ۔
دوسری جانب ان کو کوئی اصلاح اور تربیت کرنے کا بیڑا اُٹھاتا ہے تو اس کو جاہل اور نکما کہہ کر اپنی بے حسی اور من گھڑت “کلچر” کو فروغ دینے میں اعلیٰ شاہی کرتے ہیں۔ جس کا دُور دُور تک مذہبِ انسانی سے تعلق نہ ہے۔ اسی جہالت اور بے راہ روی کا نتیجہ آج مختلف طریقوں سے جنم لے کر کئی رنگوں اور روپ میں جیتے جی انسانیت کا جنازہ نکال چکے ہیں اور “خدا کے کلچر کی” دھجیاں بکھیر رہے ہیں – اس کی چند مختلف اشکال پر ایک سرسری نظر کریں تو منوں کلچر کے مالک ملتے ہیں ہر بندہ اپنا الگ کلچر لیے ہر گلی اور محلے صدا لگانے میں مصروفِ عمل ہے ۔ کبھی بھٹی، کھرل، ملک، اعوان چغتائی، سندھو، گکھڑ ، چودھری ، غوری ، مان، پٹھان ، وِرک ، بورٹ ، تیلی ، چوہان ، گجر اور نہ جانے کیا کیا نام دے کر اس “کلچر” کا چھاج لیے سرگرمِ عمل ہیں۔
ہر بندہ اپنی ذات پات کی الگ دُکان کھول اپنی تشہیر کیے جا رہا ہے ۔ مگر ماضی اور حال کے تناظر میں کوئی ایک سبق بھی نہیں سیکھ پایا۔ حالانکہ یہی لوگ روزانہ کئی ایسے “کلچر” کے مالکوں کو منوں مٹی میں دفن ہوتے دیکھتے ہیں مگر اثر پھر بھی نہیں ہوتا- مومن خان مومن اپنی شاعری میں عصر حاضر کی عکاسی کرتے ہیں۔
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
اثر اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ منوں “کلچر” اور “فتور ” کے مالک ہیں ۔ جو گلی اور محلے میں نئی سے نئی شکل لے کر چل پڑا ہے اور جگہ جگہ پڑاؤ ڈالے ہیں ۔ ان کو بتایا جائے کہ جس” کلچر” کے تم مالک ہو، اسی “کلچر ” کے سرداروں کو تم قبر میں دفن کرتے ہو اور مٹی ڈالتے وقت اس کی قبر پر ہاتھ جھاڑ کر واپس آنے سے قبل اعلانیہ بتا رہے ہوتے ہو کہ تمھارا کلچر تمھارے اوپر ہی پھینک کر جا رہے ہیں۔
تو مراد کیا ہوا ؟ اس کوعقل اور شعور والے ہی جان سکتے ہیں ۔ اصل کلچر جو مٹی کے ساتھ مٹی ہوا وہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سمجھ پھر بھی نہیں آتی۔ اسی “کلچر” کے حوالے سے انور مسعود لکھتے ہیں :
اجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام
اس قریہ شکستہ و شہر خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے
اب یہاں موصوف کا مرکزی نقطہ وہی” کلچر ” اور “کلچر” کے سرداروں کی اوقات اور وقعت ہے۔ اُس ہڑپہ کے نگر سے بھی ان کو رتی برابر سبق نہیں مل سکا۔ اپنا اپنا طور، طریقہ اور رواج متعارف کرکے کے رب کے “کلچر” کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں ۔ مگر ربِ کائنات نے اپنا” کلچر ” آج بھی عیاں رکھا ہے۔ کتابِ مقدس میں لکھا ہے :
” اے انسان تو خاک ہے اور پھرخاک میں لوٹ جائے گا-“
” کلچر” کے دعویداروں کو ہڑپہ کے کھنڈرات سے بھی سبق اب تک حاصل نہ ہو سکا، طوفانِ نوع جیسے واقعہ سے عبرت برآمد نہ کر سکے ، جو خدا کے عذاب کا شکار ہوئے یہ آثار اور آج کے قبرستانوں میں لاکھوں پڑے سے “کلچر” اسی ایک کلچرکی نظر ہوئے جس کو خدا نے ابتدائے کائنات سے متعارف کروایا تھا۔ تکبر کے ماروں کے لیے ایک بہت بڑا سبق اور “کلچر ” کی رٹ لگانے والوں کے لیے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔ اِن کے لیے صرف یہ کہنا ضروری ہے کہ:
“زبر سے زیر ہو جا کیونکہ آگے پیش بھی ہونا ہے۔”
اس وقت ہر شخص زبر کا کردار لیے وقعت اور اہمیت کو فراموش کر چکا ہے جو ان کی اس” انا “اور” خیالی” صورتحال کی عکاسی ہے ۔ ہر شخص دوسروں پر مسلط ہونے کی تگ و دو میں ہے اس “زبر ” کو بغور دیکھا تو یہ ہر لفظ کے اوپر ہی براجمان ہے۔ کبھی بھی لفظ کے نیچے نہیں آئے گی۔ اس سے مراد زبردست اور قابض و مسلط کا مفہوم ملتا ہے جو آج کا اس بے بنیاد اور بے ڈھنگ کلچروں نے بسیرا کر کے حقیقی “کلچر” کو پست کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر خدا کا کلچر آج بھی کسی نہ کسی رنگ میں لمحہ بہ لمحہ بغیر وقفہ کے ان کو اپنا اثرورسوخ دکھاتا ہے۔ غریب کے گھر پیدا ہونے والا بھی اسی “کلچر” سے تعلق رکھتا ہے جو امیر کے گھر ۔ اسی آدم کی اولاد ،اس مٹی سے تخلیق ہونے والا ایک دن اس کے اندر جا کر رہے گا۔
یہی منوں کلچر کے مالکوں کو دیکھا ہے کہ اُمیدیں تو آدمیوں سے لگاتے ہیں اور پھر شکوہ خدا سے کرتے ہیں تو کیا کمال کرتے ہیں؟ ان کے ہاتھ صرف ایک من گھڑت “کلچر” جو لاتعداد روپ لے کر آ چکا ہے ۔
نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******