ِسرفراز تبّسم ادبی حلقوں میں شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار اور کالم نگار کی حیثیت سے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ سرفرازؔ کا تعلق بحیثیت شاعر جدید غزل کے مکتبہء فکر سے ہے۔ یہ تحریر ان کے زیرِ نظر شعری مجموعہء کلام ”ہاتھوں میں آسمان“ کا ایک تجزیاتی جائزہ ہے۔ سرفراز تبّسم کے سوچ، ادراک اور تخیل کی وسعت کا اندازہ ان کے شعری مجموعہء کلام کے عنوان ”ہاتھوں میں آسمان“ سے ہوتا ہے۔ میرے نزدیک محور کی حیثیت سے منتخب کئے گئے شعر
ہاتھوں میں آسمان لئے سوچتا ہوں …… دریا میں آسماں کو دھونا بھی چاہیے
سے ہوتا ہے۔ ناقدینِ سُخن کے مطابق تخیل ایک انسانی صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو کسی شے یا حقیقت کو اس کی عدم موجودگی میں اپنے ذہن میں دیکھنے یا لانے کا وصف پیدا کرتی ہے۔ تخیل بھی ذہانت اور یاداشت کی طرح تخلیقی تجربے کو خارجی شکل میں ڈھالنے کا طریقہ ہے۔ انگریزی ادب کے معروف شاعر اور ادبی ناقد،ایس ٹی کالرج (1772-1834) کے الفاظ ہیں، ”تخیل حقیقتوں اور تجربات کو انسانی ذہن میں توڑ مروڑ کر اور شکست و ریخت کرکے نئی شکل دیتا ہے۔اشیاء کی موجودگی میں انہیں فرض کرتا ہے۔“ تخیل ہر انسان میں موجود ہوتا ہے لیکن ہر شخص اسے برتنے کا ہنر نہیں جانتا۔شاعر اپنے اظہاری رویوں میں اسے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو اچانک ظہور میں آتا ہے اور نہایت سرعت سے گذر جاتا ہے، شاعر یا ادیب اسے محفوظ کرلیتا ہے۔سرفرازؔ کی شاعری میں تخیل کا وصف ان کے اسلوب میں نئی نئی سمتیں وضع کرتا ہے اور اہلِ ذوق قارئین کے افکار پر اثر انداز ہوتا نظر آتا ہے۔
زمانہء طالب علمی میں اُردو ادب کے زمانہ ساز شاعر حضرتِ علامہ اقبال کا اُن جوانوں سے محبت کا اظہار سنتے اور پڑھتے آئے، جو کہ اپنے علم و عمل کی بدولت ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جرات اور حوصلے رکھتے ہوں۔ لیکن سرفراز جہانِ شعر وسُخن کے اس سورما کی مثل ہیں جو ستاروں پر کمند نہیں ڈالتے بلکہ ستاروں کے لئے قرطاس کی حیثیت رکھنے والے آسمان ہی کو اپنے ہاتھوں میں تھامے دریا کے پانی میں اس کی تلخیص کا سوچ رہے ہیں۔ِسرفراز تبّسم کے شعری مجموعہء کلام ”ہاتھوں میں آسمان“ میں جدت اور وسعت دونوں کے رنگ نمایاں ہیں۔ موصوف جن کا ادبی سفر کہانیوں اور افسانہ نگاری سے ہوا، وہ آج اپنی خوبصورت شعری اظہار، باطنی و خارجی مشاہدات و تجربات کے باعث غزل اور نظم گوئی کی پختگی کی منزل کو چھورہے ہیں۔
معروف شاعر نذیر قیصر اس مجموعہ کلام پر اپنی رائے دیتے ہوئے رقمطراز ہیں، ” …………”ہاتھوں میں آسمان لئے“ انکار اور اقرار کے درمیان کا سفر نامہ ہے جو سرفرازؔ کی محبت کا پڑاؤ ہے۔“ واقعی محبت کا سفر اور نشہ نہ رکُنے والا اور نہ اُترنے والا ہے۔ شعر و سُخن کی دُنیا میں مشاہدات و تجربات ہی وہ محرکات ہیں جو شعر گوئی کے لئے ایک موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں اور پھر بقول غالب ؔ،غیب سے مضامین ادراک اور خیال کی صورت اُترنے لگتے ہیں۔
سرفرازؔ ایک سنجیدہ اور حساس شاعر ہوتے ہوئے خوشی و مسرت، محبت، رنج و غم، ہجر و وصال اور مایوسی غرض ہر طرح کہ انسانی زندگی کے مراحل سے گذرتے ہیں۔ اپنے ماحول میں ان تمام احساسات کے زیرِ اثر موصوف کے اشعار میں انہی عوامل کا رنگ در آیا ہے۔کسی بھی انسان کی متوازن شخصیت اس بات سے مشروط ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہر طرح کے حالات سے گذرے۔ اور مابعد یہی مشاہدات آخرِکار شاعر کے تجربات میں ڈھل کر اُس کی تخلیق کا حصہ بنتے ہیں۔ اور انہی خارجی و باطنی عوامل کے زیر ِ اثر شاعری سرفراز ؔکے ہاں بھی ملتی ہے۔ شعری مجموعہء کلام ”ہاتھوں میں آسمان“ کے مطالعہ میں قاری، شاعر کو فطرت کے بہت قریب پاتا ہے۔ شاعر نے فطرت کے کئی عوامل کواستعاروں کے طور پر استعمال کیا ہے۔سرفرازؔ نے اپنے اشعار میں ان استعاروں کوکہیں بھی مبہم نہیں ہونے دیا بلکہ اِن میں ایک معنویت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
زیرِ نظر، شعری تصنیف میں موصوف نے جہاں کائنات کے مختلف رنگوں کو شعری پیراہن میں مقید کیا ہے وہیں پر کئی ایک انسانی احساسات کو اپنے سُخن کا حصہ بنایا ہے۔ کیفیت کی سطح پر ان کے کلام میں کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ اس معاشرہ میں رہتے ہوئے بقول انگریزی ادب کے معروف شاعر، مضمون نگار اور ڈرامہ نگار ٹی ایس ایلیٹ کے، ”ادیب معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے“، سرفرازؔ نے اپنی باطنی آنکھ کو کھلا رکھا ہے۔ فطرت میں موجود باہمی تعلق کی اساس جذبہء محبت ہے۔ اس تعلق اور رشتہ کو تہہ و بالا کرنے والی قوتوں کی ستیزہ کاری کے خلاف سب سے پہلے جو با اثر جمالیاتی آواز بلند ہوتی ہے وہ ایک فن کار(شاعر، افسانہ نگار، ناول نویس اور ڈرامہ نگار)کی ہوتی ہے۔ ایک حساس اور تخلیقی ضمیر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس نظامِ فطرت کے جمالیاتی اور اخلاقی تناسب و توازن کو متاثر کرنے والے عناصر کو حسیاتی سطح پر محسوس کرے، فکری سطح پر اس پر تامل کرے اور جمالیاتی سطح پر اس کو بڑھاوا دے۔ سرفرازؔ نے اپنی شعری (غزل، نظم، قطعہ نویسی)میں اس تخلیقی ضمیر کی ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے نبھایا ہے۔
میں فرشتوں کے ساتھ دھرتی پر
آسمانی زبور گاتا ہوں
میں جلنے نہ دیتا تری بستیوں کو
اگر میرے ہاتھوں میں ہوتا سمندر
حوصلے سے بسر کریں صاحب
زندگی معجزہ نہیں ہوتی
سرفرازؔ کی شاعری پہ رائے دیتے ہوئے معتبر ناقدین نے جہاں ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر بات کی ہے وہیں بقول ڈاکٹر ناصر عباس، ”…………سرفرازؔ اپنی شاعری کو اس زندگی کا تخیلی روزنامچہ بناتے ہیں جو بسر کی گئی ہے اور جسے وہ بسر کرنے کی حسرت ہے۔“ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایک حساس فن کار ہر روز مختلف حالات و کیفیات سے دوچار ہوتا ہے۔ اور اسی لئے انہی محرکات کے پیش ِ نظر اپنی شعری و نثری تخلیق کی شکل دیتاہے۔ انگریزی ادب کے رومانوی شاعروں کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے شاعر جان کیٹس(1795-1821) مطابق، ”شاعر اور افسانہ نویس کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی۔ وہ جب چاہے کسی بھی شے کی شخصیت اپنے اوپر طاری کر سکتا ہے۔“ سرفراز ؔ کی شاعری میں بھی ایسا ہی رحجان دیکھا جاسکتا ہے۔ صنف ِ غزل میں وہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں، اورجدید شعراء کی غزل کا مزاج اوررحجان بھی ایسا ہی دیکھا گیااور یہی دورِ حاضر میں غزل گوئی کی خوب صورتی ہے۔ مو صوف کی نظموں میں محبت کا جذبہ حاوی نظر آتا ہے،جیسے نظم،”محبت، ویلنٹائن کی نظم، ابھی کچھ پیار باقی ہے، محبت تو کبھی مرتی نہیں ……!، محبت کی تیسری ادھوری نظم،“ اس مشاہداتی امر کی مثالیں ہیں۔ چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں؛
بہا کر لے گیا سب کچھ تبسمؔ
یہ دریا عشق کا جب بھی چڑھا ہے
مَیں محبت کا اک ستارہ ہوں
پھر مسیحا کی دار دے مجھ کو
ہماری داستانِ عشق کیسی
ذر ا تم سے محبت سی ہوئی ہے
کسی نے مڑ کے کیا دیکھا مجھ کو
یہ دنیا خوب صورت ہو گئی ہے
سرفراز تبسم کا آبائی شہر جہلم ہے لیکن وہ قریب دودہائی پہلے دیار غیر منتقل ہوگئے۔ تاحال لیسٹر، انگلینڈ میں مقیم ہیں اور اُردو ادب کی ترویج کے لئے کام کررہے ہیں۔وطن سے دُور دیارِ غیر کی صعوبتوں سے وہی واقف ہوسکتا جسے ان حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ وطن سے دُوری اور اپنوں سے جدائی کا غم بے بیان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک شاعر اور ادیب کے لئے ان کیفیتوں کو اظہاری پیراؤں میں بیان کرنا آسان ہے۔ مہجری ادب کی اصطلاح ادبی حلقوں میں کوئی نہیں ہے۔سرفرازؔنے دیارِ غیر میں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ ا دبی ذوق کی شمع کی لو کو بجھنے نہیں دیا۔
گھر کہاں اور روز گا ر کہاں
امتحاں سے گذرنا پڑتا ہے
اگرچہ سارا انگلستاں مرے دل میں دھڑکتا
مگر اس زندگی کا نام پاکستان رکھا ہے
بدن کی دھوپ بھی ہے ڈھلنے والی
وطن کو واپسی جو ہو رہی ہے
سرفراز تبّسم کا شعری مجموعہء کلام، ”ہاتھوں میں آسمان لئے“موصوف کے جمالیاتی ذوق کا مظہر اور شخصی تجربات و مشاہدات کا آئینہ دار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مجموعہء کلام صاحبانِ ذوق ِ شعر و سُخن سے دادِ و تحسین وصول کرے گا۔ سرفرازؔ کے لئے تہہ ِ دل سے دُعا گو ہوں کہ ان کے اظہارِ سُخن میں اور اضافہ ہو۔ ان کا ادبی سفر پڑاؤ در پڑاؤ جاری و ساری رہے، آمین۔
*******