واقعہ ء تصلیب اور ایسٹر: اُردُو شاعری کے تناظر میں پروفیسر عامر زریں ؔ

اُردو ادب نے اپنی مختلف اصناف کے ذریعے مذہبی تہواروں کی اہمیت اور آگاہی کو اُجاگر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اِن مخصوص موضوعات پر اہل ِسخن و دانش نے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر ادب اور خاص کر اُردو کے حوالے سے اِس طریقہء اظہار کو بہت اثر انگیز قرار دیا ہے۔اُردو ادب میں ہم دیکھتے ہیں کہ تصوف پر مبنی کلام کو باترنم پیش کرنے میں ملکی اور علاقائی سطح پر کئی ایک سکہ بند صدا کاروں نے اپنے مخصوص اندازِ بیان اور آواز سے اِسے قبولیت کے اعلی معیار پر پہنچا دیا ہے۔ فنِ قوالی میں مجموعی اور مخصوص موضوعات پر باتر نم شاعری سے ایک سماع بندھ جاتا ہے۔ اِسی طرح مرثیہ سے بھی مرثیہ گو شعراء کو عقیدت و احترام سے سنا جاتا ہے۔

مسیحی تہواروں اور اُردو ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک خوشگوار احساس اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ کرسمس(ولادتِ المسیح) ہو یا ایسٹر(عید ِ قیامت المسیح) یا پھر مذہبی نوعیت کے پروگرام اِن میں غزل اورگیت کے ذریعے پیغام ِالٰہی کی ترویج موثر انداز میں نظر آ تی ہے۔ زبور (مزامیر) جن کی بنیادی زبان عبرانی تھی اُردو پنجابی اور دوسری عالمی اور علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو کر اور اپنے پیغام اور مزاج کے حوالے سے موسیقی کے قالب میں ڈھل کر اہل ِایمان مسیحیوں کے لیے باعث ِ فضل ٹھہرے۔ واقعہء تصلیب مسیحی ایمان کا مرکز اور محور ہے۔اگرچہ کلام ِالٰہی میں عہد نامہ عتیق میں مختلف ادوار میں آنے والے انبیاء اور رُوح ُالقدس کی ہدایت سے قلم بند کیے جانے والے صحائف میں اس خاص واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بارے میں پیشن گوئیاں موجود تھیں اور جب خداوند یسوع مسیح کی زمینی خدمت کے تین برسوں کا جائزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ منجیِ دوعالم نے اپنے یروشلم جانے اور وہاں پر اپنی مخالفت، گرفتاری، دار و رسن کے ظلم و تشدد، قریبی ساتھیوں کی بے وفائی، واقعہء تصلیب اور پھر صلیبی موت کے بعد
دفنائے جانے اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھنے کے بارے میں مسلسل اپنے شاگردوں کو آگاہ کر رہے تھے۔ اور یہ تمام باتیں کلام ِ مقدس کی روشنی میں برسوں پہلے کی جانے والی پیش گوئیوں میں بیان کی جا چکی تھیں۔
اُردو ہندی اور پنجابی کے علاوہ برصغیر میں بولے جانے والی علاقائی زبانوں میں مسیح یسو ع کے واقعہ ء تصلیب، موت اور پھر جی اُٹھنے کے واقعات کو زینت بنایا گیا ہے۔بالخصوص پاکستان میں اس ضمن میں اُردو اور پنجابی کلام تسلی بخش حد تک ملتا ہے۔ اس تحریک کے بارے میں حالات و واقعات کا اظہار اُردو ادب کی صنف ’گیت‘میں زیادہ ملتا ہے جبکہ اردو غزل اور نظم میں اس مذہبی موضوع پر قدر ے کم لکھا گیا ہے۔خال خال صنف قوالی میں بھی ابھی تک تھوڑا کام ملتا ہے۔مسیحی گیتوں میں واقعہئ تصلیب کے حوالے سے واقعات ِ کلوری، گرفتاری، کاہنوں اور پھر رومی حاکموں کے سامنے پیش کیے جانے کے واقعات اور اس دوران مسیح یسوع پر ہونے والے بے جا ظلم و ستم کا اظہار گیت کے صنف میں زیادہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ معزز اور مستند شعراء جو کلام الٰہی کے تقدس اور علمِ الٰہی کے رموز سے واقف ہیں، وہ اپنی شاعری میں ان چیزوں کا اظہار ِخیال کرتے ہیں۔سو واقعہء کلوری کے بارے میں شعری اظہار میں ہمیں تھیولوجی کا موضوع کافی مقامات پر یکسر تو نہیں کہہ سکتے لیکن قدر ِکم پابند ِ سخن کیا گیا ہے۔
یسوع مسیح کے القابات، پیشگوئیاں اور الٰہی منصوبہء مخلصی ایسے محرکات ہیں جن کی مدد سے صلیبی واقعات کے موضوع پر شاعری مرتب کی گئی ہے۔ جہاں تک مسیحی شعراء کے کلام کا تعلق ہے تو دُنیا بھر میں جن جغرافیائی حصوں یا عصری ادوار میں واقعہئ تصلیب کے بارے میں شاعری ہوئی ہے وہاں شعرا ء نے خداوند یسوعؔ مسیح کی ذاتِ اقدس، ان کی زمینی خدمت اور فدیہ کے فلسفہ کو اپنے ثقافتی پس منظر میں دیکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُردو ادب میں ثقافتی عوامل کے بعد علم ِالٰہی نے بھی اس طرزِ شاعری پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور کیے بھی جانے چاہیے تھے تاکہ سامعین و قارئین کے لیے ایک ایمان پرور کلا م مہیا کیا جا سکتا۔ اس ضمن میں آزاد خیال اور الٰہیاتی سیاق و سباق جیسے دونوں عوامل کا شعراء کرام کے اسلوب اور طرزِسوچ پر واضح اثر نظر آتاہے اور یہ مذہبی شاعری پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ان ثقافتی اور سماجی دھاروں نے مسیحی شاعری کے موضوعات کو بلا مبالغہ متاثر کیا ہے۔ علم ِالٰہی کے ساتھ کئی سماجی القابات بھی ہمیں مسیحی شاعری میں ملتے ہیں۔ میسر شعراء کرام کے کلام میں مسیح یسوع کے ساتھ اندھی عقیدت کا اظہار غالب ہے۔ لیکن یسوع مسیح کے مشن اور کام کی جھلک کم ملتی ہے۔ اس شاعری میں خوبصورت الفاظ تو ہیں لیکن اس عظیم اور تاریخی شخصیت اور اس کے پیغام کو کم اہمیت دی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو عالمی کلیسیا مختلف نوعیت کے بحرانوں کا شکار ہے۔ شعراء نے ایک روایتی انداز میں مسیح یسوع کے مشن کو اور حوالے سے دیکھا ہے، اور اپنی عقیدت کا اظہار اپنی شاعری میں کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس طرزِ اظہار میں اندروں بیں (Introvert)روحانیت ملتی ہے تو مضائقہ نہ ہوگا۔
دورِ حاضر کی مسیحی شاعری میں علم ِ الٰہی کا اظہار کم ملتا ہے۔ غیر معیاری اور کمزور شاعری کو موسیقی کے ذریعے قابلِ سماعت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کئی ایک ایسے عوامی مسیحی گلوکار ہیں جن کی اپنی تحریر کردہ اور گائی جانے والی شاعری میں الٰہیات کی غلطیاں ملتی ہیں۔ واقعہء تصلیب کی شاعری میں مسیح یسوع کو شخصی نجات دہندہ کے روپ میں دکھانے کی ضرورت ہے۔ عصر حاضر میں مسیحی نظموں اور گیتوں پر زیادہ شاعری سننے میں آرہی ہے، لیکن غزل پر کم کام ہوا ہے۔ اس کی وجوہات نئی نسل کے اس صنف سے باغیانہ رویہ اور تربیتی اور ادبی اداروں کا فقدان ہے۔ اگر دیکھا جائے تو قدیم مذہبی ادب ہم تک زیادہ ترگیتوں کی شکل میں پہنچا ہے۔ سیالکوٹ کنونشن کے گیتوں کی کتاب میں مبارک جمعہ اور ایسٹر کے کئی یادگارگیت ہیں جو کہ نسل در نسل عبادات میں گائے جاتے ہیں اور ان کے بغیر ان مخصوص عبادات کا تاثر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ اس مشہورِ زمانہ عبادت کی کتاب میں شاملِ اشاعت چند ایک مشہور گیت جن میں واقعہء تصلیب اور قیامت المسیح کے حوالے سے مشہور ہیں۔چند ایک گیت جیسے کہ، ”کلوری دے سہارے پاپی بچدے نیں سارے (پریم بھگت)“، ”ویکھو صلیب یسوع موہڈے تے چائی جاندا (پی ڈی رافائیل)“، ”ساڈے گناہاں بدلے یسوع نثار ہویا (بھوپ سنگھ)“، ”سُراں نوں ملا کے ہالیلویاہ گا کے عید نوں منانا (پی ڈی رافائیل)“، زندہ ہے اب اور زندہ رہے گا (کے آر ضیا)“، اور ایسے ہی بہت سے مشہور زمانہ گیت ہمیں اس تاریخی عبادت کی کتاب میں ملتے ہیں۔ سیالکوٹ کنونشن کی عبادت کی کتاب اس وقت اُردو اور پنجابی گیتوں اور غزلوں کی مستند کتاب ہے۔ اگر چہ عصرِ حاضر میں مُلک کے مختلف شہروں میں بائبل لٹریچر اسٹورز پر کچھ اور عبادت کے گیتوں کی اور کتابیں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ مُلک کے اندر مختلف چرچز نے اپنی اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق مزامیر اور مسیحی گیتوں (جس میں پرانے اور نئے گیت شامل ہیں) کی کتب تیار کی ہیں اور عبادات میں یہ کتب زیرِ استعمال ہیں۔ لیکن سیالکوٹ کنونشن کی عبادت کی کتاب بھی نئے بشارتی گیتوں کے اضافہ اور ترمیم شدہ ایڈیشن کے ساتھ زیرِ استعمال ہے۔
دورِ حاضر میں سوشل میڈیا پر وی لوگز / یو ٹیوب چینلز اور ادبی تنظیمیں مذہبی تہواروں پر مخصوص موضوعات پر مسیحی مشاعروں کی روایت ایک خوش آئند بات ہے۔ اس سال بھی آن لائن مشاعروں میں واقعہء تصلیب اور عید ِ قیامت المسیح کے موضوع پر ادبی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔اِن مشاعروں میں بھی معیاری شاعری سننے کو ملی۔ مشاعروں کی ادبی روایت یقینا اُردو اور پنجابی مسیحی ادب میں ایک تاریخ رقم کرنے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ان چینلز/ تنظیموں کے منتظمین داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ ان چینلز/ تنظیموں میں چند ایک کے نام: ساکواہ سمواہ عالمی ادبی تنظیم (اٹلی)، پاکستان کرسچین رائٹرز گلڈ، مکالمہ ٹی وی(یو۔ کے)، کاتھولک ٹی وی پاکستان، قلمکار انٹرنیشنل (یو۔ کے)،نیو کاسل کرسچین نیٹ ورک (یو۔ کے)،مینارٹی کنسرن (یو۔ کے)، فرو غِ سُخن(فیصل آباد، پاکستان)، آس ادبی فورم (لاہور، پاکستان) اور خزینہئ سخن (لاہور، پاکستان) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
ضرورت ہے کہ جَدَلِیّات کو سمجھا جائے کہ کون سے ایسے عوامل یا ادبی دھارے یا ادبی تحریکیں ہیں جو ہمارے اہل ِ قلم کو متاثر کر رہے ہیں اس کے علاوہ مسیحی مذہب کی تاریخ کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اسی طرح مذہبی شاعری کے ڈانڈوں کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی شاعری خاص طور پر واقعہء تصلیب اور عید ِ قیامت المسیح پر منظوم کرتے ہوئے علمِ الٰہی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ تاکہ یسوع ؔمسیح کی زمینی خدما ت، تعلیمات اور نجات کے پیغام کی موئثر طریقے پر ترویج ہو سکے۔

One thought on “واقعہ ء تصلیب اور ایسٹر: اُردُو شاعری کے تناظر میں پروفیسر عامر زریں ؔ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading