ترامیم میں جکڑی اقلیتیں: خالد شہزاد‎

مورخہ 19 اپریل 2010 کو صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والی 18 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “ 1973 کے آئین کو ہم نے آج اپنی اصل شکل میں بحال کر دیا ہے۔”18ویں ترمیم پر دستخط کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے،آمروں کی ترامیم ختم ہو گئیں۔ اس طرح آئین میں اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد کنکریٹ لسٹ اور آمرانہ دور کے ایل ایف او کا خاتمہ ہو گیا اور صوبوں کو خود مختاری مل گئی۔ آئین سے ضیاالحق کا نام خارج ہو گیا، اعلی عدلیہ میں ججوں تعیناتی کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام، مسلح افواج کے سربراہ کی تقرری کے لیے صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس کے پابند، انتخابی عمل کو غیر متنازعہ اور شفاف بنانے کے لیے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کا قیام۔ 73 کے آئین میں 2002 کے ایل ایف او کا خاتمہ۔
سن دوہزار دس ہی کو بی بی سی نے آئین میں ترامیم کے حوالہ سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 73 کے متفقہ آئین میں زوالفقار علی بھٹو نے نے سات جبکہ نواز شریف نے چھ ترامیم کرائیں جبکہ پرویز مشرف نے ایل ایف او کو آئین میں شامل کرایا۔ 1974 میں بنگلہ دیش کو منظور کرنے کے چھ ماہ بعد آئین میں دوسری ترمیم کے زریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 6 اضافی نشستیں مختص کی گئیں۔ جنرل ضیا الحق نے آٹھویں ترمیم کے زریعے مختار کل بن کر اقلیتوں کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ کرکے جداگانہ طریق انتخاب کے زریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا۔ نواز شریف نے خواتین کی مخصوص نشستوں کی بحالی کے لیے گیارویں ترمیم واپس لے لی۔ جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002 کے زریعہ آئین میں ترامیم کرکے اقلیتوں سے براہ راست نمائندگی کا حق چھین کر متناسب نمائندگی کا غیر جمہوری طریقہ انتخاب مسلط کیا اور سترہویں ترمیم کے زریعہ خواتین، ٹیکنوکریٹس اور اقلیتوں کی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے ارکان کی تعداد مخلوط طریقہ انتخاب کے بعد پارلیمنٹ میں موجود اکثریتی جماعتوں کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر اقلیتوں کی مخصوص اضافی نشستوں کی نامزدگی اور ووٹر کی عمر سے متعلقہ ترامیم جو جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت 17 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ سے منظور کرائی کو نا چھیڑا۔ اگرچہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے مکمل خاتمہ کا دعویٰ اقلیتوں کے حوالہ سے درست نہیں کیونکہ متنازعہ ترمیم کے کچھ حصے ابھی بھی 18ویں ترمیم میں جوں کے توں موجود ہیں، جیسے آرٹیکل 51(۱) اور 17ویں ترمیم کے آرٹیکل 106(۱) اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی غیر منصفانہ تقسیم کو مکمل نظر انداز کیا گیا۔ 18ویں ترمیم والے قانون ساز طویل عرصہ کی جدوجہد کے بعد آٹھویں ترمیم کے زریعہ اقلیتوں کے لیے مختص نشستوں میں آبادی کے اعتبار سے ہی اضافہ کر لیتے مگر انہوں نے ٹکنیکل اور گھمبیر بھنور میں اقلیتوں کو پھنسے رہنے میں ہی اپنی جیت سمجھی۔ 17ویں آئینی ترمیم کے اس سقم کا ازالہ کرنے کی بجائے دانستہ غلطی کرکے آئین کی اصل “روح” کے مطابق اقلیتوں کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق نا دے کر 73 کے آئین بنانے والوں کی مرضی و منشاء کے مطابق اقلیتوں کے لیے مخصوص کی گئی اضافی نشستوں کے فارمولا سے انحراف کرکے 17ویں آئینی ترمیم کی غیر ترمیم شدہ شقوں کی بھنور میں پھنسا کر اقلیتوں کو جمہوریت کے ثمرات سے دور رکھ کر اقلیتوں کو ترامیم کی قید میں جکڑ دیا۔

نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading