کلام کی کثرت نقصان دہ: سموئیل کامران

دادا پوتا مچھلی پکڑنے گئے۔ دونوں میں روائیتی دوستی تھی۔ پوتے نے دادا سے کہا،” دادا جان، میرے بڑے بڑے خواب ہیں۔ کیا میں کسی اور سے یہ شیئر کر سکتا ہوں؟”
دادا نے کہا، ” چپ کرو، پہلے مچھلیاں پکڑ لیں پھر بات کریں گے۔”
تھوڑی دیر میں ٹوکری مچھلیوں سے بھر گئی۔ دادا بولے، ” ابھی بہت سی مچھلیاں دریا میں ہیں۔ مگر ان مچھلیوں اور ٹوکری کی مچھلیوں میں فرق ھے۔ ٹوکری والی مچھلیوں میں سے کچھ پکیں گی، کچھ تلی جائیں گی، کچھ بار بی کیو ہوں گی۔ ایک آدھ دن میں کھیل ختم۔ مگر جو مچھلیاں دریا میں ہیں وہ آزاد، بڑھتی اور بچے دیتی رہیں گی۔ ٹوکری والی مچھلیوں نے منہ کھولا، جب کہ دریا کی مچھلیوں نے منہ بند رکھا۔
جو ہر بات پر منہ کھول لے، ہر بات کا جواب دینا چاہے، غصہ میں زبان بے قابو ہو جائے، اپنے سب منصوبے سب کو بتاتا پھرے اس کا حشر ٹوکری کی مچھلیوں جیسا ہوتا ہے۔
” کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو رکھنے والا دانا ھے۔” (امثال، 19/10)
*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading