کیا امام دین شہباز علامہ اقبال کے اُستاد تھے؟ : پروفیسر شوکت نعیم قادری

امام دین شہبازؔ بلا شبہ ایک نابغہ ء روز گار شخص تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر، بہترین مترجم، بے مثال استاد، ایک متحرک مذہبی رہ نما اور ایک بھر پور اور فعال سماجی کارکن تھے۔ وہ اُردو، فارسی اور پنجابی زبانوں پر یکساں دست گاہ رکھتے تھے۔ وہ اُردو اور پنجابی میں شعر کہتے تھے اور ان کا تخلص ’شہبازؔ‘تھا۔ زبور شریف کا منظوم پنجابی ترجمہ اُن کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ ترجمہ نگاری ایک مشکل فن ہے۔جس کو تمام تر فنی تقاضوں کے ساتھ برتنا کارِ محال ہے اور اگر ترجمہ کے لیے الٰہی کلام کا انتخاب کیا گیا ہو تو یہ کام اور بھی کٹھن ہوجاتا ہے لیکن اگر مترجم کا باطن نورِ بصیرت سے منور ہو تو ترجمہ کا کام ایک خاص قسم کی وارفتگی سے پایہ ء تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ زبور شریف کے منظوم پنجابی ترجمے کے ساتھ بھی یہی صورت ہے۔ امام دین شہباز نے یہ کام اِس قدر وارفتگی سے سر انجام دیا ہے کہ ترجمہ،ترجمہ نہیں لگتا بل کہ طبع زاد کلام کا مزہ دیتا ہے اور اس سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ اس کام کی نمود، خونِ جگر سے ہوئی ہے۔ بہ قول علّامہ اقبال ؒ
رنگ ہو یا خشت و سنگ، جنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ ئ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
امام دین شہباز 1861ء میں ظفر وال (ضلع سیالکوٹ) میں ایک زرگر خواجہ خاندان میں پیدا ہوئے۔برکت اللہ صاحب اپنی کتاب’کلیسیائے پنجاب کے دانا معمار‘ صفحہ نمبر 10میں لکھتے ہیں کہ ان کاتعلق شیعہ مذہب سے تھا۔ حوالہ دیکھتے ہیں:
”وہ مذہب کے شیعہ تھے اور اس مذہب کے دل دادہ، نماز، روزہ اور دیگر رسوم کے سخت پابند، ایامِ محرم میں تعزیہ نکالنا، ماتم کرنا،مرثیے پڑھنا ان کا معمول تھا۔“ 1؎
بعد ازاں یہ خان دان سیال کوٹ منتقل ہوگیا۔ سکاچ مشن اسکول 1864ء میں سیال کوٹ شہر میں قائم ہوا۔ اس کے علاوہ سکاچ مشن کا ایک اسکول سیال کوٹ صدر میں بھی واقع تھا۔ امام دین شہباز کو اسی اسکول میں داخل کرایا گیا۔ اس اسکول میں بتدائی درجے ہی سے بائبل کی تعلیم لازمی تھی۔ نصابی کتب اس قسم کی تھیں جن سے دین ِ مسیح کی ترویج واشاعت ہوسکے۔ شہباز نے دس برس کی عمر میں مشنریوں اور دین ِ مسیح میں دل چسپی لینا شروع کر دی، انہوں نے 28فروری 1877ء میں بہ عمر16 سال ہنٹر میموریل چرچ میں دینِ مسیح قبول کر لیااُس وقت وہ آٹھویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے 2 ؎ ۔
سکاچ مشن کی رپورٹ مئی 1877ء میں ان کی تبدیلی ئمذہب کا ذکر آیا 3 ؎ ۔ اسی رپورٹ سے ان کی تاریخِ ولادت (1861ء) کا تعین بھی ہوتا ہے۔ مڈل کے درجے میں کامیابی کے بعد انہوں نے جونیئر اینگلو ورنیکلر کی ڈگری حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد امام دین شہباز کا تقرر سکاچ مشن ہائی اسکول،سیال کوٹ (صدر) میں بہ حیثیت معلم ہوگیا۔ وہ اسکول میں جغرافیہ، اردو اور حساب کے مضامین کی تدریس کرنے لگے اُن کا ماہ وار مشاہرہ 32 روپے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی تعلیم بھی دیتے تھے۔سکاچ مشن کی رپورٹ 1884ء کے مطابق مسیحی تعلیم دینے کا سب سے بڑا حصہ کرم چند اور امام دین کو دیا گیا۔ 4 ؎
آیئے! اب اُٹھائے گئے سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒ 9نومبر 1877ء کو سیال کوٹ میں پیدا ہوئے۔ اپریل 1883ء 5 ؎ میں علاّمہ اقبال ؒکے استاد مولوی سیّد میر حسن کے ایما پر 6 ؎ انہیں جدید تعلیم کے حصول کے لیے سکاچ مشن ہائی اسکول سیال کوٹ شہر میں داخل کرا دیا گیا۔ علّامہ اقبال ؒنے مڈل کے درجے کی سند 1891ء میں حاصل کی۔ یاد رہے کہ امام دین شہباز ؔ 1882ء میں سکاچ مشن ہائی اسکول سے منسلک ہوئے اوردینی اور دنیاوی تعلیم اُن کا دائرہ ئ تدریس میں آتی تھی۔ آیئے! اب اس ضمن میں دو حوالے دیکھتے ہیں:
1۔”۔۔۔ اُس زمانہ میں مسیحی تعلیمی درس گاہوں میں بائبل مقدس کی تعلیم مسیحی اور غیر مسیحی بچوں کے اخلاق و اطوار کو سنوارنے اور خدائے قدوس و برحق کی عزت و تعظیم کے جذبہ سے بچوں کی زندگیوں کو معمور و سر شار کرنے اور حُب ِ انسانیت کا درس دینے کیلئے لازمی اور ضروری تھی۔ یقینا علامہ اقبالؒ نے بھی بائبل مقدس کی تعلیمات سے استفادہ کیا، اور یہ بات و ثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مسیحی اصطلاحات جن کو علّامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ وہ سکول کی چار دیواری میں مطالعہ ء بائبل کی رہنِ منت ہیں اُن دنوں سکاچ مشن ہائی اسکول سیال کوٹ میں منشی امام دین صاحب بائبل کے اُستاد تھے۔ جو نہایت شریف النفس اور محنتی استاد تھے۔ انہوں نے علّامہ اقبالؒ کو بائبل مقدس کی تعلیمات سے روشناس کرایا تھا۔“ 7 ؎
2۔”۔۔۔ ان دنوں میں سکاچ مشن ہائی اسکول، سیال کوٹ میں منشی امام الدین صاحب بائبل مقدس کے استاد تھے جو نہایت شریف النفس اورمحنتی استاد تھے۔ انہوں نے علّامہ اقبالؒ کو بائبل مقدس کی تعلیمات سے روشناس کرایا تھا۔“ 8 ؎
مندرجہ بالا پوری بحث سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ امام دین شہبازواقعی شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبالؒ کے استاد تھے۔ یہ ایک اچھے استاد کا فیضانِ نظر تھا اور مکتب کی کرامت تھی جس نے اقبالؒ کا اقبال بلند کر دیا۔ بہ قول اقبال ؒ ؎
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
عظیم عامر کی تصنیف’عصرِ حاضر کا داؤد‘کا غائر مطالعہ کرتے ہوئے ایک جملے نے مجھے چونکا دیا۔ حوالہ دیکھیے:
”آپ (امام دین شہباز) اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام اساتذہ میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کیوں کہ آپ نے اپنے استاد مولوی میر حسین سے اُردو، حساب اور فارسی سیکھی تھی۔ اس لیے آپ کو سکول میں بھی یہی مضمون پڑھانے کو ملے۔“ 9 ؎
یہ حوالہ پڑھ کر میرا ذہن علّامہ محمد اقبالؒ کے استاد شمس العلماء مولوی سیّد میر حسن کی جانب منتقل ہوگیا۔ میرا خیال ہے عظیم عامر کو مغالطہ ہوا ہے کہ انہوں نے مولوی میر حسن کی بجائے مولوی میر حسین لکھ دیا ہے۔ آیئے! اس ضمن میں چند حوالے دیکھتے ہیں:
1۔”اِسی دوران سیّد میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔“ 0 ؎
2۔ ”وہ نہ صرف علوم اسلامی اور عرفان و تصّوف سے آگاہ تھے بل کہ علوم جدیدہ،ادبیات، لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے۔ اُن کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ اپنے شاگردوں میں اردو، فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کر دیتے۔“ 11 ؎
3۔”وہ (مولوی سیّد میر حسن)اپنی تمام عمر اسکاچ مشن اسکول ہی سے وابستہ رہے جہاں اُن کی تنخواہ اُن کی وفات تک ایک سو بیس سے زاید ہونے نہ پائی۔“ 12 ؎
مولوی میر حسن 8اپریل 1844ء فیروز والا میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام رونق بخش تھا، شاہ صاحب کے لقب سے مشہور ہوئے۔ قرآنِ پاک کی تعلیم والد بزرگ وار سیّد محمد شاہ سے حاصل کرنے کے بعد چند کتابیں دو دروازہ کی مسجد کے امام مولانا شیر محمد سے پڑھیں۔ ذاتی محنت سے عربی اور فارسی میں دسترس حاصل کی۔ 31 ؎ علّامہ اقبالؒ نے 1923ء میں ’سر‘کا خطاب قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اور اس شرط پر قبول کرنے کی ہامی بھری کہ اُن کے استاد کو شمس العلماء کاخطاب دیا جائے۔ گورنر پنجاب نے یہ شرط قبول کر لی اور مولوی سیّد میر حسن کو شمس العلماء کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔مندرجہ بالا حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ مولوی سیّد میر حسن ہی اسکاچ مشن ہائی اسکول اور بعد ازاں کالج میں استاد رہے اور وہ یقینا امام دین شہباز کے استاد رہے ہوں گے۔ جس کا شہباز نے اقرار بھی کیا۔ یقینا ایسے قابل اساتذہ کی محنت، لگن اور تجربہ ہی سے اُن کے قابل شاگرد قابلیت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔
بہ قول اقبالؒ ؎
مُجھے اقبالؒ اُس سیّد کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اُس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
حوالہ جات:
(1)عصرِ حاضر کا داؤد، عظیم عامر، مکتبہ عناویم، گوجرانوالا، نومبر 2005ع،ص نمبر 15۔
(2)عصرِ حاضر کا داؤد، عظیم عامر، مکتبہ عناویم، گوجرانوالا، نومبر 2005ع،ص نمبر 25،19،۔
(3) علّامہ اقبالؒ اور مسیحی مشاہیر،ایف جی اے، لاہور،دسمبر2002ء ص نمبر19۔
(4)عصرِ حاضر کا داؤد، عظیم عامر، مکتبہ عناویم، گوجرانوالا، نومبر 2005ع،ص نمبر 39۔
(5)اُردو جَامع انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم، 1988ء،ص نمبر1441۔
(6) زندہ رُود،جلد اوّل، جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1985ء ص نمبر50-51،۔
(7) علّامہ اقبالؒ اور مسیحی مشاہیر، مرتبین منصورگلِ / ریاض طاہر،ایف جی اے، لاہور، دسمبر2002ء ص نمبر13۔
(8) علّامہ اقبالؒ اور مسیحی اِصطلاحات، ڈاکٹر نذیر یوسف، مسیحی اشاعت خانہ، لاہور،1979ء ص نمبر16۔
(9)عصرِ حاضر کا داؤد، عظیم عامر، مکتبہ عناویم، گوجراں والا، نومبر 2005ع،ص نمبر 39۔
(10) زندہ رُود، جلد اول،جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1985ء ص نمبر51۔
(11) زندہ رُود، جلد اول،جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، 1985ء ص نمبر60۔
(12) زندہ رُود، جلد اول،جاوید اقبال، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور،1985ء ص نمبر61۔
(13) اُردو جَامع انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم،1988ء،ص نمبر1667۔

(اقتباس : ماہنامہ “نیاتادیب” لاہور/ ملتان، مارچ 2020، صفحہ نمبر 12)

https://www.facebook.com/media/set/?set=a.2983521761686470&type=3

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading