قبر پر فتح مند ہو جانا— یہ کرشمہ کمال اُس کا ہے
کلوری کا سفر حقیقت میں — آدمی سے وصال اُس کا ہے (راقم الحروف)
دوپہر تک یروشلیم شہر کے گلی کوچوں میں یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ ’وہ جی اُٹھا ہے‘۔ عجیب بات ہے! لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ وہ ضرور جی اُٹھا ہوگا کیوں کہ جس کی تصلیب کے وقت جان دینے پر چٹانیں تڑک گئیں ہے اور مُردوے زندہ ہوئے ہیں وہ خود کیوں نہ جی اُٹھا ہو گا۔
طاغوتی قوتیں اِس خبر کو دبانے میں ناکام نظر آرہی ہیں، مقتدر حلقوں میں بھی یہی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ جب یہ خبر پلاطُس کی بیوی تک اور خود حاکمِ وقت تک پہنچی تو وہ کسی حد تک مطمین نظر آرہے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اُس بے گناہ کے خون سے ہاتھ نہیں رنگے تھے۔ مورخ اِس سارے واقعہ کو تاریخ کے اوراق کی رونق بنا رہا ہے تو شاگرد حیران و پریشان ہیں۔ایک طرف اُن کے کانوں میں یسوعؔ کے یہ الفاظ سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ اُس نے کہا تھا وہ تیسرے دن جی اُٹھے گا، دوسری جانب سردارِ کاہن کے دماغ پر یہ الفاظ کسی ہتھوڑے سے کم نہ تھے کہ ”۔۔اِس مقدس کو ڈھا دو تو مَیں اسے تین دِن میں کھڑا کر دوں گا“ (یوحنا ۲:۹۱)۔
شریعت اور تاریخ ایسے واقعات کی نشان دہی تو کرتی ہے کہ مُردے زندہ ہوئے بلکہ یہاں تک بھی ہوا کہ کوئی کسی مچھلی کے پیٹ میں تین دن رہنے کے بعد بھی زندہ بچاہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مُردہ تین قبر میں رہنے کے بعد از خود زندہ ہو جائے۔وہ یہ بھول گئے کہ اُن سے کہا گیا تھا کہ یوناہ کے نشان کے علاوہ اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔ جی اُٹھنے کے بعد چالیس روز تک مختلف اوقات میں شاگردوں پر ظاہر ہونا، یسوع کے جی اُٹھنے کی ناقابلِ تردید شہادت ہے۔ ایک موقع پر تو بند کمرے میں آموجود ہونے پر یسوعؔ نے شاگردوں کی حیرانی دیکھتے ہوئے اُن کی غلط فہمی دُور کرنے کے لئے اُ ن سے کہا وہ محض رُوح نہیں ہے چھُو کر دیکھ لو، روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی اور یہی نہیں بلکہ اُن کے سامنے مچھلی کھا کر بدن سمیت جی اُٹھنے کے دعویٰ کی از خود تصدیق بھی کر دی۔
چالیسویں دن فرشتوں کے اس بیان پر کہ یہی یسوعؔ جسے تم اِس طرح آسمان پر جاتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی آتے ہوئے بھی دیکھو گے۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یسوعؔ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ فرشتوں کی یہ گواہی شاگردوں کی معرفت آج تک مسیحی ایمان کا جزوِ لاینفک ہے۔ فی زمانہ حالات اُس کی آمد کے قریب تر ہونے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ آخری زمانے کا آغاز اُس کی آسمان کی بادشاہی کی منادی سے ہو چکا ہے۔ اُس وقت کو تقریباً دو ہزار سال ہو چکے ہیں۔ آدم سے موسیٰ، موسیٰ سے مسیح، اور مسیح سے مسیح کی آمد ثانی میں دو دو ہزار سال کا وقفہ ہونے کے اصول پر آمدِ ثانی کے لئے دوہزار سال ختم ہونے میں تقریبا ً نو سال باقی ہیں۔ بعد ازاں اُس کا فضل ہے کہ وہ تحمل کر کے ٹھہرے اِس لئے وقت کو غنیمت جانتے ہوئے آمدِ ثانی کی تیاری کریں۔ وہ دو ہزار سال پہلے جی اُٹھا ہے، اب آمدِ ثانی کی خوشی مناتے ہوئے تیاری کرنے کا عہد کریں تاکہ اس برس کی عیدِ قیامت المسیح حقیقی طور پر آپ کی زندگی میں ہمیشہ کی زندگی کا وسیلہ بن جائے۔ آمین!