تاریخی اہمیت کے حامل قدیم دریائے سندھ کی تہذیب کے آثار ِقدیمہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے کون واقف نہیں۔ پاکستان میں واقع یہ قدیم مقامات اندازہً 2500 ق م پرانے ہیں۔ ان پوشیدہ حقیقتوں کو آج کی دنیا کے لئے دریافت کرنے والی شخصیت سے شاید کم ہی لوگ واقف ہوں یعنی سرجان ہربرٹ مارشل جو کہ 1902 ء سے 1928 ء تک آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اُن کی اس کاوش اور لگن کی بدولت ہم بر صغیر کے لوگ اپنے ماضی سے روشناس ہوئے۔ اس دریافت سے ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے آباؤ اجداد کا رہن سہن اور طرز زندگی کیسا تھا۔ ہمارے تدریسی نصاب میں تاریخی آثارِ قدیمہ کا تو شاید ذکر ملتا ہو لیکن سر جان مارشل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
شاہی قلعہ، فیصل مسجد اور دُنیا کی کئی مشہور عمارتوں اور ان کے ماہر تعمیرات کے بارے میں شاید کوئی جانتا ہو۔ لیکن ایسا کیا ہے کہ ایک ادیب، شاعر یا اداکار کو اُس کی ایک فلم پر وہ شہرت اور پذیرائی ملتی ہے جو سر جان مارشل کو صدیوں بعد بھی نہیں مل پائی۔ یا کسی ڈاکٹر، انجنئیریا ایسے ہی کسی اور شعبہء زندگی سے منسلک افراد جنہوں نے بڑی محنت اور کوشش کی انہیں وہ شہرت اور گلیمر کیوں نہیں ملتا جو شعراء، ادباء یا آرٹسٹ کو ملتا ہے۔
ہمارے ہاں بہت سے ایسے ادیب، شعراء اور آرٹسٹ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی محنت اور کاوش سے بہت نام کمایا۔ لیکن کیا کوئی ادیب کسی گلیمریا گلیمرس رجحان سے منسلک ہو سکتا ہے؟ علامہ اقبال، مجازؔ، انیسؔ، منٹو اور ایسے بہت سے ادیب اور دانش ور تھے جو اپنی زندگی ہی میں بام عروج پر پہنچ چکے تھے۔
”گلیمر“ جدید دنیا کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ ”سحر“ کیا جاتا ہے۔ اس گلیمر نے میڈیا (ابلاغ) سے ادب کی طرف سفر اختیار کیا اور ادیبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ادیب اور میڈیا میں فرق ہو تا ہے۔ ادیب کچھ کہنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ میڈیا کچھ دکھانے پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔ اگرچہ بتایا جانا اور دکھایا جانا ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن ایک ناظر اس کے کردار کی کردار نگاری پر زیادہ توجہ دیتا ہے کہ اس کردار کی اظہاری خصوصیات کیسی ہیں؟یایہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کردار کی باڈی لینگویج وغیرہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ادیب کی کہانییا غزل اس کی غیر موجودگی میں پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے ہم ادیب کے بتائے جانے پر زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ یہی فرق ہے کہ بصری فنون یا میڈیا چینل کا کام دکھانا اور ادیبیا شعراء کا کام بتانا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس جدید اور مابعد جدید دُنیا میںیہ دکھانے اور بتانے کے عمل مل چکے ہیں بلکہ بغل گیر ہوچکے ہیں۔ اس وقت ہر ادیب کے پاس سوشل میڈیا کی طاقت ہے گو کہ سوشل میڈیا نے جمہوری رویوں کو بھی فروغ دیا ہے۔ مثال کے طور پر سوشل میڈیا کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے بہت سے ادیبوں نے بغیر کسی گروپ میں حصہ لیتے ہوئے شہرت حاصل کی ہے۔ سوشل میڈیا نے بہت سے پبلشرز کی اجارہ داری کو ختم کیا ہے۔ اب دور حاضر میں ہر ادیب اپنی جگہ پر ایک آئیکن (Icon) ہے۔ اس کی ایک ساخت، حیثیت اور کلچر ہے۔ سینکڑوں، ہزاروں لوگ اس کی پوسٹ پڑھتے اور اپنی رائے دیتے ہیں۔ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ماضی میںیہ ہوتا رہا ہے کہ چند ایک رسائل یا میگزین ہوتے تھے۔ ایک کی طرف داری کے لئے دوسرے کی نفی کرنا پڑتی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے ”۔ کوئی آدمی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا کیونکہیا تو ایک سے عداوت رکھے گا اور دوسرے سے محبت۔ یا ایک سے ملا رہے گا اور دوسرے کو ناچیز جانے گا۔“ لیکن آج کل یہ رجحان تبدیل ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بغیر کسی میگزین میں کام چھپوائے شہرت اور ناموری حاصل کی جا سکتی ہے۔
بہت سے بلاگ اور یو ٹیوب چینلز ادب کے فروغ میں اپنا بھرپور فرض ادا کرتے ہوئے ادیبوں اور شعراء کو بھی ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہے ہیں۔ اگر کوئی پلیٹ فارم نہ بھی میسر آئے تو دیکھا گیا ہے ادیب خود فیس بک پیج پر اپنی پوسٹ لگا کر اپنا فلسفہ اور خیال ہزاروں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ دور حاضر میں جدید سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنی تحریریں، افسانے، کہانیاں اور شاعری بہتر اور پرکشش انداز میں ہزاروں لوگوں تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔
خود کو گلیمرائز کرنے کے لئے خود کوmyth بنانا پڑتا ہے۔ اور اس کے لئے ہمیں خواہش کی آبیاری کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر منٹو نے افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ مشہور ہونے کے لئے لکھا تھا یا گلیمر کے لئے؟ یا اس نے انسانی المیہ پر یہ افسانہ تحریر کیا تھا یایہ ثابت کرنے کے لئے ہم کتنا اچھا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔ اس کیس میں مسئلہ اہم ہے یا افسانہ نگاری؟ ظاہر ہے افسانہ نگاری اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن انسانی مسئلہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اوریہ انسانی مسئلہ کے باعث ہی ایک بڑا افسانہ بنا۔ کیونکہ اس سے قبل تقسیم ہند ہو چکی تھی، پہلے سارا المیہ جنم لے چکا تھا۔ وہ المیہ اس دور میں گھر گھر کی کہانی تھا۔ منٹو نے وہاں ایک کردار کو لیا اور ایک عالمی شہرت کا حامل افسانہ لکھا۔ جب انسان کسی المیہ کو الفاظ میں ڈھالتا ہے تو کیا فن اس پر حاوی ہو سکتا ہے یا انسانی مسئلہ کہیں پس پشت چلا جاتا ہے۔ اور اگر یہ خواہش ہے کہ میں نے مشہور ہی ہونا ہے نئے نئے الفاظ چن کر تاثر وضع کرنا ہے، نئے نئے جملے، نئی نئی ردیفیں لے کر آنا ہے تو اس طرح انسانی مسئلہ بھلا کوئی بھی ہو وہ سنجیدگی سے ہمارے پاس کیسے پہنچے گا۔
اگرچہ سوشل میڈیا کے مثبت کردار سے جمہوری قدروں کو فروغ ملا ہے۔ لیکن چند باتوں میںیہ سوال بھی ہمارے ذہنوں میں جنم لیتا ہے کہ بلکہ تشویش اور اضطراب کا باعث ہے کہ جس ادیب نے دو تین افسانے ہی لکھے ہوں وہ کسی ایسے ادیب کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے جس نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ ریاضت میں گزار نے کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہو۔
لہٰذایہ بات بھی قابل غور اور تسلیم کرنے لائق ہے کہ اچھی تخلیق کے لئے ہزاروں لاکھوں قارئین کا ہونا شرط نہیں۔ اگر اس بات میں وزن ہے تو یہ ایک سنجیدہ خیال ہے۔ کیونکہ ایک اچھی تخلیق میں عصری شعور و آگہی کتنی ہے اور اس میں عصری مسائل کا اظہار کیسا ہے، اس شاہکار تخلیق میں آرٹ کی جدت، ُندرت اور تخلیقی تجربہ کیسا ہے، تب اسے بڑا فن پارہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ دورِ حاضر میں ادب اور سوشل میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے تخلیق کردہ ادب دُنیا بھر کے قارئین تک چند لمحوں میں پہنچ رہا ہے۔ اس اہم پیشرفت سے ادیب کو پذیرائی بھی مل رہی ہے اور اس میں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا رجحان اور کشش بھی بڑھ رہی ہے۔
*******