اُس کے چاروں اور سمُندر ہے مگر وہ پھِر بھی پیاسا ہے۔ مَیں اُس سے پوچھتا ہُوں کہ وہ کب سے پیاسا ہے؟۔ میری بات سُن کر وہ پہلے روتا ہے پھِر ہنستا ہے اور پھِر میری طرف دیکھتا ہے۔۔۔مَیں حیرت کی کشتی پر سوار اُسکے وجود کے ساحل سے ٹکراتا ہُوں تو ایک نئی لہر جنم لیتی ہے۔مَیں ازل سے پیاسا ہُوں مگر یہ پیاس میری اپنی پیاس نہیں ہے۔ بلکہ یہ پیاس جو میرے اندر ہے وہ ایک لامحدود سمُندر کی مانند میرے وجود کے ریتلے میدان میں سرایت کر چُکی ہے۔ اور مَیں اِس اَندیکھی پیاس کی بیکراں وسعتوں کے حصار میں ہُوں۔ پانی میرے چاروں اور اِکٹھا ہو کر مجھے اپنی اہمیت کا احساس دِلانے کے لئے اُچھلتاکُودتا رہتا ہے۔ اور مجھے اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیتا۔ مَیں اُس کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہُوں مگر مجھے کوئی راستہ سُجھائی نہیں دیتا۔مَیں بے بسی سے بند گلی میں دیواروں سے سر ٹکراتا رہتا ہُوں۔اُس کی آواز میں درد کی شِدت ہوا کی لہروں پر سوار چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ مَیں پریشان ہوجاتا ہُوں مگر مجھے اُس کی بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
مجھے پریشان دیکھ کر وہ پہاڑ کی طرف چل دیتا ہے۔ مَیں بھی اُس کے پیچھے چلنے لگتا ہُوں کیونکہ مَیں تو اُس کے پیروں کے ساتھ بندھا ہُوا ہُوں۔مجھے اُس کے پیروں کے ساتھ کِس نے باندھ دِیا تھا! مجھے معلوم نہیں۔ مگر اِتنا معلوم ہے کہ مَیں اُس کی شبیہ کا عکس لئے اچانک رُوح کے دائرے میں ایک سیارے کی طرح داخل ہوگیا۔ مَیں زبردست گھن گرج کے ساتھ اُس دائرے کی قید سے رہائی کے لئے کوشاں رہتا ہُوں مگر خود کو اُس سے جُدا نہیں کرسکا۔میرے دِل کے آنگن میں ایک صلیب نصب ہے جِس پر اکثر خود کو مصلوب دیکھتا ہُوں۔ کربلا کے نوحے میں لِپٹی پیاس کو صدیوں سے اپنے سینے پر چلتا ہُوا محسوس کرتا ہُوں۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہر آدمی خود اپنا عیسیٰ ہے، اپنا حسینؓہے، اپنا فریدؒہے، اپنا بُلہے شاہؒ ہے۔وہ کوئی لفظ کہے بغیر تائید میں سر ہِلادیتا ہے۔
اُس کی باتیں بڑی حِکمت اور دانائی کی ہیں۔ وہ صاحبِ اِختیار کی طرح طوفان کو بھی حُکم دیتا تو وہ بھی تھم جاتا۔ اُس کے چاروں طرف بسنے والے لوگ اُسکی باتوں سے بے نیاز اپنے اپنے وجود کے آنگن میں زِندہ لمحوں کے ساتھ رقص کناں ہیں۔ مگر وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی دریائے یردنؔ پر پہنچ گیا اور دریا میں اُتر کر پانی میں
ڈُبکی لگائی اور جب باہر نکلا تو رُوح کبوتر کی صورت اُس کے سر پر ٹھہر گئی۔ اُس نے وقت کی ڈور کا سِرا اُس کے دِل کی کھونٹی سے باندھ دِیااور دوسرا سِرا لا محدود وسعتوں میں گُم ازل کے پہلے لمحے کے گرد لپیٹ دِیا۔ اور پھِر جنگل کی طرف نکل گیا اور چالیس دِن تک بغیر کچھ کھائے آزمایا جاتا رہا۔
اور پھِر اُس کا کلام مسلسل تیز دھار کی طرح اُن کی سماعتوں سے ٹکراتا رہا، ”اَے بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو! میرے پاس آؤ مَیں تُمہیں آرام دُوں گا“۔ اور پھِر ”مانگو تو تُم کو دِیا جائے گا، ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تُمہارے واسطے کھولا جائے گا“۔ اُس نے کہا کہ ”راہ حق اور زِندگی مَیں ہُوں“ کیا تُم نے یہ نِوشتہ بھی نہیں پڑھا کہ جِس پتھر کو معماروں نے رَدّ کِیا وہی کونے کے سِرے کا پتھر ہوگیا“۔ ”یہ خُداوند کی طرف سے ہُوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے“۔ اُس کا کلام بار بار اُن کے دِل کے دروازوں پر دستک دیتا رہا مگر وہ دروازے کھولنے کو تیار نہ ہُوئے بلکہ اُسے کہتے ”اَے آسمانی سرگوشیوں کے گیت گُنگُنانے والے اجنبی آ……ہم سے گلے مِل۔ کیا تُو ہم میں سے نہیں؟ آ ہمارے ساتھ زِندگی کا رقص کر ……ہم ہمیشہ سے اِسی طرح سے زِندہ ہیں۔ ہمیں آسمانی بادشاہی کی باتوں سے کیا غرض؟……وہ اُسے رَدّ کرتے رہے۔ وہ چاہتے تھے کِسی نہ کِسی طرح اُس پر اِلزام لگائیں۔ وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسئلہ اُس کے سامنے رکھتے تاکہ اُسے آزمائیں اور اُسے اُس کی باتوں سے پکڑ سکیں۔آج بھی وہ ایک عورت کو پکڑ کر اُس کے سامنے لائے اور کہا ”اَے اُستاد! یہ عورت زِنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔ ہماری شریعت کہتی ہے کہ ایسی عورت کو سنگسار کریں“۔ اُنہوں نے اپنی مکاری کا جال اُس کے سامنے پھینکا تاکہ اُس پر اِلزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر وہ خاموش رہا اور جھُک کر اُنگلی کے قلم سے زمین کے صفحے پر کچھ لکھنے لگا۔ اور جب اُن کے سوالوں کی تکرار کی پھوار اُس کے چہرے پر جمنے لگی تو اُس نے ایک نظر اُن کے چہروں پر ڈالی اور کہا ”جو تُم میں بے گُناہ ہو وہی پہلے اُس کے پتھر مارے“ اور خود دوبارہ زمین پر جھُک کر اُنگلی سے کچھ لکھنے لگا۔ مَیں بھی اُس کے سائے کو پہنے اُسکے قدموں میں بیٹھا خاموشی سے دیکھتا رہا۔تاریخِ اِنسان میں ازل سے آج تک یہ تیسری دفعہ ہُوا ہے کہ اِلٰہی زبان نے اِلہام کا جامہ پہنا ہے۔ پہلی دفعہ پتھر کی لوحوں پر اِلٰہی ہاتھ سے لکھے ہُوئے احکام اُن کو دِیئے جو اُس ہجوم کے پاس عہد کے صندوق میں گہری نیند سو رہے ہیں۔ دوسری دفعہ بیلشضر بادشاہ کی ضیافت کے دوران فضا میں آدمی کے ہاتھ کی اُنگلیاں ظاہر ہُوءِیں اور ہاتھ کے اُس حِصے نے بادشاہی محل کی دِیوار کے گچ پر نوشتہ لکھا”مِنے مِنے تقیل و فرسِین“۔ اِس کے معنی یہ ہیں ”خُدا نے تیری مملکت کا حساب کِیا اور اُسے تمام کر دِیا۔ تُو ترازُو میں تولا گیا اور کم نکلا۔ تیری مملکت منقسم ہُوئی“ اور اب تیسری بار اِبن آدم کے ہاتھ سے زمین پر لکھا گیا پیغام اُن کی سمجھ سے باہر ہے۔جب اُس کے سوال کا پتھر لڑکھڑا کر ہجوم کی طرف بڑھا تو وہ سب ایک ایک کر کے نکل گئے۔اور وہ عورت اکیلی اُس کے سامنے رہ گئی۔۔۔تب اُس نے کہا ”اَے عورت کیا کِسی نے تجھ پر حُکم نہیں لگایا؟۔۔۔عوت نے جواب دِیا ”اَے خُداوند کِسی نے نہیں“۔۔۔تب اُس نے اُسکی طرف دیکھا اور کہا ”مَیں بھی تجھ پر حُکم نہیں لگاتا، جا۔۔۔پھِر گُناہ نہ کرنا۔۔۔
”دُنیا کا نُور مَیں ہُوں جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا۔ بلکہ زِندگی کا نُور پائے گا“ اور وہ اُس کی پیروی میں اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔مَیں نے کہا ہم دونوں اِن کے درمیان رہتے ہُوئے بھی اجنبی کیوں ہیں۔۔۔؟ میرے لفظوں کی کشتی سوال کا وجود اپنے دامن میں چھپائے لہروں پر سوار ہو کر بہت دُور نکل گئی اور پھِر وقت کا سیال مادہ جواب بن کر قطرہ قطرہ اُسکی زبان سے ٹپکنے لگا۔
مَیں اِن سے تمثیلوں میں باتیں کرتا ہُوں تاکہ وہ دیکھتے ہُوئے نہ دیکھیں اور معلوم نہ کریں اور سنتے ہُوئے نہ سُنیں اور نہ سمجھیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ رجوع لائیں اور معافی پائیں۔۔۔ میرے کلام کے بوجھ سے اِس کی سماعت کا دم گھُٹنے لگتا ہے۔اِس لئے ضرور ہے کہ اِبن آدم بہت دُکھ اُٹھائے اور یہ لوگ اُسے رَدّ کریں اور وہ قتل کِیا جائے اور تِین دِن کے بعد جی اُٹھے“۔
مَیں نے کہا تُمہاری باتیں زمین کی نہیں بلکہ آسمان کی ہیں۔ یہ لوگ تُمہارے نہیں۔۔۔یہ ہمیشہ تُم سے نشان طلب کرتے رہیں گے۔اُس نے سوال کی پھُلجڑی چھوڑی لیکن تُم مجھے کیا کہتے ہو؟مَیں نے اُس سے کہا ”تُو مسِیح ہے“۔پھِر مَیں نے اپنے اندر کی آنکھیں کھول کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہُوں کہ ایک برّہ صیونؔ کے پہاڑ پر کھڑا ہے اور اُس کے ساتھ میں ایک لاکھ چوالیس ہزار شخص ہیں جِن کے ماتھے پر اُس کا اور اُسکے باپ کا نام لکھا ہُوا ہے۔میرے دِل کی گہرائیوں سے آواز اُٹھتی ہے۔ دراصل مجھے اپنی رُوح کے اندرجھانکنا اچھا لگتا ہے۔ رُوح میں جھانکنا ایسے ہی ہے جیسے کِسی گہرے کنوئیں کے اندر جھانک رہا ہُوں جِس کی تہہ میں ایک نامعلوم طوفان برپا ہے۔ نہ جانے کہاں سے آتا اور کہاں چلا جاتا ہے۔میرے خیال کا غبارہ اچانک پھٹ گیا۔ مَیں نے اُس کی طرف دیکھا تو میری پیاس یکدم جاگ اُٹھی۔سفر سے تھکا ماندہ ہو کر وہ کنوئیں پر یُونہی بیٹھ گیا کہ ایک عورت پانی بھرنے آئی۔۔۔تب اُس نے عورت سے کہا کہ ”مجھے پانی پِلا“……تُو غیر مرد ہو کر مجھ اجنبی عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟……اُس نے جواب میں کہا ”اگر تُو خُدا کی بخشش کو جانتی اور یہ بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پِلا تو تُو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زِندگی کا پانی دیتا۔تب عورت نے کہا کہ تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے پھِر وہ زِندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟۔اُس نے جواب میں اُس عورت سے کہا ”جو کوئی اِس کنوئیں کے پانی میں سے پیتا ہے وہ پھِر پیاسا ہوگا مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پیئے گا جو مَیں اُسے دُوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہوگا بلکہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زِندگی کے لئے جاری رہے گا“……
عورت نے جلدی سے کہا ”اَے خُداوند! وہ پانی مجھ کو دے تاکہ مَیں پیاسی نہ ہُوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں۔ مَیں نے غور سے عورت کی طرف دیکھا……اور سوچنے لگا کہ مَیں تو اِبتدا ہی سے اُس کی سانسوں کے ساتھ منسلک رہا ہُوں مگر پھِر بھی میرے دِل کا صحرا پیاسا ہے جو سیراب ہو ہی نہیں پاتا۔اِسے ہمیشہ نئی بارشوں کا اِنتظار رہتا ہے کیونکہ وہ پوری شِدت سے اُن نئی بارشوں میں بھیگنا چاہتا ہے۔ ہمیشہ ہر موسم میں میرے دِل کے ہونٹ خُشک ہی رہتے ہیں۔ دراصل دِل کے صحرا کی تِشنگی ایک بارش کو جذب کرنے کے بعد بھی پیاسی ہی رہتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے پیاسی ہرنی جنگلوں میں پانی کے نالوں کو ترستی ہے۔ جیسے میری رُوح خُدا کے قرب کو ترستی ہے۔ اگرچہ میرے آنسو میری خوراک بن جاتے ہیں پھِر بھی میری پیاس بھوکی ہی رہتی ہے۔چلو یہاں سے چلیں ……زمین کی بے اِنتہا وسعت کے دوسرے سِرے تک…… جہاں ہم نہیں پہنچ پائے وہاں بھی اپنا پیغام پہنچائیں۔ اور پھِر چلتے چلتے ایک جھیل کنارے پہنچے تو مجھے ہر چیز ہری بھری نظر آنے لگتی ہے۔ جھیل کا سبز رنگ کا پانی دیکھ کر میرے دِل میں نئی خواہش کی کلی کھِل اُٹھی کہ کِسی بڑے راجباہ کے موگے کی طرح ڈِیک لگا کر جھیل کا سارا پانی اپنے خُشک حلق کی غار میں اُتار لُوں۔ وہ میری طرف دیکھ کر مُسکرایا، جھیل نے پھرِ سے مشرق کی طرف بہنا شروع کر دِیا اور پھِر جھیل اپنا دامن پھیلا دیتی ہے اور وہ بہتے بہتے ندی نالے، دریا اور سمُندر بن جاتی ہے۔ اور وہ پانی پر چلتا ہُوا مجھ سے آگے نکل جاتا ہے۔
تب مَیں نے سوچا کہ وہ سمُندر بن گیا ہے تو کیوں نہ مَیں لہر پہن لُوں تاکہ یہی لہر میری پہچان بن جائے جو ہر دم وقت کے ساحل سے ٹکراتی رہے اور وہ جو کہ سمُندر میں کھڑا ہے مَیں اُس کی آغوش میں سر رکھ کر مرتا رہُوں اور مر مر کر جیتا رہُوں۔
پھِر وہی ہُوا جو کہ ہونا تھا۔ جب وقت آپہنچا اور اُس کے مرنے کی نوبت پہنچ گی تو اُس نے یُوں دُعا کا دامن پھیلایا کہ ”اَے باپ! اگر یہ پیالہ میرے پِئے بغیر نہیں ٹل سکتا تو تیری مرضی پُوری ہو“۔ اور پھِر یُوں ہُوا کہ اِبن آدم آدمیوں کے حوالے کِیا گیا اور لوگوں نے اُسے پکڑا اور حاکم ِ وقت کے سامنے پیش کِیااو ر وہ زور زور سے چِلائے کہ اِسے مصلوب کر۔۔۔اِسے مصلوب کر۔۔۔اِس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر۔۔۔اور اُنہوں نے اُسے دو ڈاکوؤں کے درمیان صلیب پر مصلوب کِیا۔ جب تمام باتیں تمام ہُوءِیں تو اُس نے صلیب پر کہا ”مَیں پیاسا ہُوں“
…… وہاں سِرکہ سے بھرا ہُوا یک برتن رکھا ہُو اتھا بس اُنہوں نے سِرکہ میں بھگو ئے ہُوئے زُوفے کی شاخ پر رکھ کر اُس کے مُنہ کو لگایا تو اُس نے وہ سِرکہ پِیا۔۔۔اور دوپہر سے لے کر تیسرے پہر تک تمام مُلک میں اندھیرا چھایا رہا۔ تیسرے پہر کے قریب اُس نے بڑی آواز سے چِلاکر کہا”ایلی ایلی لماشبقتنی…… یعنی اَے میرے خُدا! اَے میرے خُدا! تُونے مجھے کیوں چھوڑ دِیا“۔ اور پھِر چِلا کر جان دے دی۔ تب مَقدِس کا پردہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹُکڑے ہوگیا اور زمین لرزی اور چٹانیں تڑک گءِیں۔ مَیں حیرانی سے یہ دیکھنے لگا۔
یہ دیکھتے ہی سمُندر بھاگا
اور دریا اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ گیا۔
پہاڑ مینڈھوں کی طرح اُچھلے
پہاڑیاں بھیڑ کے بچوں کی طرح کُودِیں
تو مَیں نے کہا
”اَے زمین تو رَبّ کے حضور تھرتھرا۔
جو چٹا ن کو جھیل اور چقماق کو پانی کا چشمہ بنا دیتا ہے۔
اور کئی عورتیں دُور سے دیکھ رہی تھِیں اور جِتنے لوگ اِس نظارہ کو آئے تھے۔ یہ ماجرہ دیکھ کر چھاتی پیٹتے ہُوئے لَوٹ گئے اور مَیں نے دیکھا کہ اُس کی صلیب پر اُسکی پسلی سے حیات ِ ابدی کا چشمہ بہہ نکلا۔ اور زِندگی کا پانی بہتا ہُوا میری زِندگی کے صحرا کو سیراب کرنے لگا اور لہر بن کر میرے اندر سما گیا۔ اور میری پیاس سمُندر میں ڈُوب گئی۔ تب نظر آنے والا صِرف سمُندر ہی رہ گیا جو زِندگی کے پانی کی لہر پی کر اپنی پیاس کی بھوک مِٹا رہا ہے مَیں اُسی سمُندر کے حصار میں قید ہُوں۔