ماں- سہہ حرفی لفظ سراپاء محبت: یوسف سلیم قادری

لفظ “ماں ” کے تین حروف بڑے رموز و نکات کے حامل ہیں۔ یہ سہہ حرفی لفظ سراپا، محبت، رنگ، خوشبو، مٹھاس، باد صبا، برستا ساون، چاہت، کھلتاپھول،کن کن الفاظ کے موتی پروؤں، ساری دُنیا کے قیمتی موتی بھی پرو لوں تو میری ماں کی بانہوں جیسا ہار نہیں بن سکتا۔ میری ماں سے میرا تعلق زمان و مکان، دل و دماغ کی حدود و قیود کی سرحدوں سے بہت آگے ہے۔ ہر خیال بہت جدا، ہر احساس، ہر لفظ، ہر خوشبو کے ساتھ یہی گماں، یہی کائنات جو پھولوں سے سجی رنگ و بو میں اٹی۔۔۔کچھ بھی نہیں میری ماں کے سوا۔ اس جہان فانی میں محبت بے شمار شکلوں میں موجود ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ انسانی رشتوں میں محبت کا اصل روپ صرف اور صرف ماں کی شکل میں ہے۔ اپنی اولاد کو ٹوٹ کر چاہنے والی شفیق، مہربان، زندگی کے گرم سرد کا مقابلہ کرنے والی میری ماں مسز شیلا قادری بھی ایسی ہی ماں تھی۔ وہ ماں کی صورت میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر تھیں۔ اگست 2014 میں، میں اس ہستی سے محروم ہو گیا تھا۔ وہ اس شہر خموشاں میں بے لوث دُعاؤں کا کفن اوڑھے خاک نشیں ہو گئیں۔ اُن کے جانے کے بعد یہ احسا س ستانے لگا کہ میرا کتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے۔ میرے لئے تو دعاؤں کا چشمہ ہی خشک ہو گیا ہے۔ میرا تو وہ شجر سایہ دا ر ہی کاٹ لیا گیا تھا جس کی ٹھنڈی چھایہ میں زندگی کی کڑی دھوپ کا ستایا ہوا، گھبرایا ہوا کچھ دیر کو سستا لیا کرتا تھا۔
ماں کے ساتھ یاد کا سفر ماضی تھا، حال ہے اور مستقبل رہے گا۔ میں ماں کی یادیں، باتیں، قلم سے نہیں گلاب اور چنبیلی کی ٹہنیوں سے لکھ رہا ہوں۔ سیاہی سے نہیں، محبت کے رنگوں سے قرطاس پر اُتار رہا ہوں۔ یہ الفاظ اتنے خوبصورت اور پاکیزہ ہیں۔ ان کی خوشبو میرے طراف میں چھائی ہوئی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے میری ماں کی محبت کی دُنیا آباد ہے اور آباد رہے گی۔ گو ماں وہ ذات واحد ہوتی ہے لیکن اپنی جگہ کسی انجمن سے کم نہیں ہوتی۔ ماں کو سوچوں تو خداوند تعالیٰ کی عظمت کے سامنے تصور سر بسجود ہونے لگتا ہے۔ ماں۔۔۔میری ماں کا وجود باعث صد برکت تھا۔ میری ماں۔۔۔عظمت و بزرگی کا مینار تھیں۔ وہ شجر سایہ دار تھیں۔ ماں مانند چنار تھیں، ماں باغ و بہار تھیں۔ میری طاقت کا حصار تھیں۔ ماں کی گود دارالقرار تھی۔ ماں غصے اور پیار کا حسین امتزاج تھی۔ سب نے اگر ماں کے سخت لہجے کی گھلاوٹ دیکھنی ہو توماں سے شوخی کر کے دیکھئے، نرم ہاتھوں کی تھپکی اور کڑی نگاہوں کی نرمی ماں ہی کا خاصہ ہے۔ ماں انسان کو انسان بنانے والی، زندگی کے آداب سکھانے والی، اخلاق و کردار کی نئی جوت جگانے والی ہی ہوتی ہے۔ماں میری ماں۔۔میری ابتداء و انتہا۔ واھد موضوع گفتگو۔۔کہ جس پر باقی ساری عمر لکھ اور بات کر سکتا ہوں۔ میری ماں۔۔۔امید کا تارا۔۔روح کی دولت، میرے رب کی عنایت، سایہ رحمت، جلوہ قدرت، ساحل کنارہ، غم کا سہارا، پیکر شرافت، اخلا ص و مروت، تخیل کی رعنائی اور زیست کی شہنائی تھیں۔ اے ماں میں تیری محبت کے ایک لمحے کا قرض بھی ادا نہیں کر سکتا۔ کاش میری ماں میرے پاس ہوتی۔ کاش وہ لوٹ سکتی۔ کبھی میں خوش قسمت تھا کہ میری ماں کا وجود میرے ساتھ تھا۔ 2014کا بھادوں ماں کو ساتھ لے گیا، میرے لئے دُعاؤں کا بند ہو گیا۔
سمجھ کہ صرف جسم ہے اور جاں نہیں رہی
وہ شخص جو کہ زندہ ہے اور ماں نہیں رہی
مجھے اور ہر شخص کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ ماننا ہو گا کہ ماں کا نحیف جسم ہمیشہ کے لئے ہماری نظروں س اوجھل ہو گیا ہے مگر ماں کی مامتا آج بھی زندہ ہے۔ ماں۔۔۔میری آنکھوں اور یادوں کے جگنوؤں میں آپ کی مسکراہٹ اور شفقت آج بھی مجھے اندر سے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ماں جی میرا وعدہ ہے کہ آپ کے سب رشتوں کو سنبھال کر ایک ہی لڑی میں پر کر رکھوں گا۔ آپ کی محبت اور دعاؤں کے سفر کو جاری رکھوں گا۔ آپ کے قدموں کی خاک اور لحد کی خاک ہی میری زندگی کا کُل اثاثہ ہے۔ اُن خوش قسمت خواتین و حضرات سے درخواست ہے جن کی ماؤں کا سایہ اُن کے سروں پر قائم ہے کہ وہ اپنی ماؤں کی قدر کریں۔ اُن کی خدمت و عزت کریں۔ کبھی اُن کا انجانے میں بھی دل نہ دُکھائیں ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔۔۔بس پچھتاؤے ہی رہ جائیں گے۔
بچھڑ جائے گر ماں تو کب ملی ہے
اُس جیسی گھنی چھاؤں پھر کب ملی ہے
ماں مفکرین کی نظر میں
٭ جس کے دل میں ماں کے لئے محبت ہے وہ زندگی کے کسی موڑ پر شکست نہیں کھا سکتا۔ (افلاطون)
٭ جس کی ماں مر جائے وہ کائنات کا مفلس ترین شخص ہے۔ (گوئٹے)
٭ سخت سے سخت دل کو ماں کی پُر نم آنکھوں سے موم کیا جا سکتا ہے۔(علامہ اقبال)
٭ اگر میری کامیابیوں کا کوئی خلاصہ ہے تو وہ میری ماں ہے۔ (جارج واشنگٹن)
٭ بچے کے لئے بہترین پناہ گاہ ماں کا دل ہے، خواہ اُس کی عمر کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ (شیکسپیئر)
٭ اُس لمحے سے ڈرو کہ ماں نفرت کرے یا بد عا کے لئے ہاتھ اُٹھا دے۔ (بُو علی سینا)
٭ اگرچہ ماں کے بازو کشتی کے پتواروں سے نازک ہوتے ہیں مگر بچے اُن پر سر رکھ کر بہت بے خبر، پُر سکون سوتے ہیں۔(وکٹر ہوگو)

نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading