تحریر: جاویدؔ ڈینی ایل
سنتے آئے ہیں کہ شاعری دل کی آواز ہوتی ہے۔یہ دل سے نکلتی ہے اور دل میں اتر جاتی ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاعر نصف پیغمبرہوتا ہے جو خدا اور بندے کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ شاعری محبت کی پروردہ ہے۔ شاعری درد و غم کا ایسا گہرا سمندر ہے جس کی تہ تک پہنچنے کے لئے ایک مَشّاق شَناور ہونا ضروری ہے۔
حاضرینِ محفل جب مجھے بشارت گل صاحب کی کتاب پر اظہارِ خیال کرنے کو کہا گیا تو اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مجھے ”گریبان“ میں پوری غیر جانبداری سے جھانکنے کی جسارت کرنا پڑی۔ جسے بشارت گل نے اپنے تخیل کی بلند پروازی سے تخلیق کرکے قارئین کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ کتاب کو لفظ بہ لفظ پڑھنے کے بعد میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بشارت گل کا شعری افق بہت وسیع ہے۔ وہ غزل گوئی کے فن میں ندرتِ اظہار کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں رومان کی چاشنی بھی ہے، ہجرو وصال کی کسک بھی ہے، اس میں ناصرف شعورِ عصر جھلکتا ہے بلکہ روزمرہ واقعات اور اِمروزو فردا کا اُتار چڑھاؤ بھی اپنے پورے منظر نامے کے ساتھ نظروں میں گھوم جاتا ہے:
ہے میرے پاس وقت کا ملبہ
اس سے آ زندگی بناتے ہیں
کہیں تو عطر سے دھوئے گئے مزاریہاں
کہیں تھے کتنے ہی بچپن بہے پسینے میں
شاعر کا خمیر عشق سے اُٹھتا ہے۔ غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے ساتھ ساتھ شاعر کی نظر اپنے گرد بکھرے ہوئے مختلف موضوعات اور حالات پر بھی پڑتی ہے جس کو وہ اپنی سوچ اور جذبات میں پُرو کر ایک ایسی مالا بنا لیتا ہے جو اس کے وجود کا ایک حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ”گریبان“ وہی مالا ہے جس کا ہر موتی اپنی آب و تاب سے قاری کے لئے بصیرت کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
یہ جانتی ہے مگر مانتی نہیں دنیا
زبان کاٹ بھی ڈالیں تو پیار بولتا ہے
عشق ایسی زبان ہے جس کا
ہم سے تو ترجمہ نہیں ہوتا
مسلسل ایک ہدایت کی طرح الہام کی صورت
کسی کے پیار نے دل میں اتاری بے قراری ہے
حساس دل کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ و ہ سماج کی ہرنشیب و فراز کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔ گریبان کا شاعر بھی ایسے ہی حساس دل کا مالک ہے یہ حساسیت اُن کی شاعری میں سطر سطر ٹپکتی ہے:
روزی روٹی کا سوچ لوں پہلے
پھر محبت کی بات کرتے ہیں
ہمارے جینے کو سنجیدگی سے مت لینا
ہمارا جینا سیاسی بیان جیسا ہے
بشارت گل بے رنگ دنیا کے نظریے کے قائل نہیں ہیں اِس لئے لوازمات ِ زندگی سے بھر پو ر لُطف اُٹھانے پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی خود انکشافی سے لوگوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ وجود ِ عرفانیات، نفسیات اور اخلاقیات کے گوہر لٹانا اُن کی شاعری کا خاصہ ہے کیونکہ انہیں زندگی کی حقیقی قدریں محبوب ہیں:
یہ وقتی تیرگی ہے سو رہا ہے روشنی سا شخص
وہ جیسے آنکھ کھولے گا اُجالے لوٹ آئیں گے
جہاں سب رہنما ہی رہنما ہوں
تو سمجھو قافلہ کوئی نہیں ہے
بشارت گل کے فکری دھارے بے شمار سمتوں میں گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ اندازِ بیاں اگرچہ نہایت سادہ اور بے ساختہ ہے تاہم اپنے دامن میں ایک درد، احتجاج، مذاحمت اور شکایت ِ زمانہ کو لپیٹے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری میں تخلیقی گہرائی کا جوہر غالب ہے:
دل، زباں، ذہن، چشم اور شکم
اجتماعی سا مسئلہ ہوں مَیں
فرشتو تم سمجھ پاؤ گے کیا انسان کی مشکل
ذرا سے بھی انسان ہوتے تو پتہ چلتا
یہ اچھی مئے بھی کچھ دیر کوزہ گر کی ہے
اُتر کے چاک سے یہ مایہ دار کی ہوگی
جن کو آدھے سچ کی علت لگ جائے
وہ پھر پورے سچ سے کینہ رکھتے ہیں
شاعر کے دل میں چھپے ارمان خواب بن کر اُس کی آنکھوں میں مچلتے رہتے ہیں جن کو اپنے ساتھ لے کر اپنی دنیائے سخن کا سفر طے کرتا ہے۔ یہ خواب کچھ روز گار ِزمانہ سے جڑے ہوتے ہیں اور کچھ رشتوں کی ڈوری سے بندھے ہوتے ہیں جو زمانے کے ہاتھوں کبھی جیتے کبھی مرتے ہیں۔ مگر بشارت ان خوابوں کا ذکر بڑے تجربے کی بنا پرحقیقی رنگ میں کرتے ہیں کہ حادثات انسان کے پاؤں روک نہیں پاتے۔
جب بھی خوابوں کا ہے سلسلہ مرگیا
پاؤں چلتے رہے راستہ مرگیا
بیٹا ہو کر جواں بھی نہ دے پایا کچھ
باپ لاغر بھی دے کر دُعا مر گیا
بشارت رشتوں کی نزاکت، اہمیت، قدر اور مقام کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کی جھلک ان کی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتی ہے:
روشنی کی کمی بسی رہتی ہے
گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوتیں
اگر ہو آسماں سے گفتگو تو جانو گے
کہ ماں کے لہجے میں پروردگار بولتا ہے
ایک روشن حقیقت ہے کہ انسان کا خمیر اس کی جنم بھومی سے جڑا ہوتا ہے بشارت گل بھی اسی حقیقت سے مُس تث نیٰ (مستثنیٰ) نہیں ہیں:
ایسے پنجاب کے گاؤں کی ہوا لگتی ہے
جیسے بچوں کو کسی ماں کی دُعا لگتی ہے
غرض جیسے جیسے ان کی شاعری کو پڑھتے جائیں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے جوہر اُجاگر ہوتے جاتے ہیں اور قاری مسحور ہوتا جاتا ہے۔ المختصر اس دور میں جب شاعری کو عام طورپر ایک مشغلہ سمجھ کر بے رحمانہ اندازمیں کھلواڑ کیا جارہا ہے، بشارت گل کے سچے اور کھرے جذبات و تاثرات کی آئینہ دار یہ کتاب”گریبان“ خاص دلچسپی کا باعث ہوگی اور مجھے یقین ہے کہ ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کرے گی۔
میں تہ ِ دل سے بشارت گل صاحب کو اس مجموعہ ئ کلام ”گریبان“ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دُعا گو ہوں کہ یہ ”گریبان“ اِس میں ہر جھانکنے والے کے حق میں ایک شفاف آئینہ ثابت ہو۔