7جنوری سے تباہ کن آگ کا ایک سلسلہ لاس اینجلس کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ آگ خشک سالی، کم نمی، اور ہواوٗں کی تیز رفتاری کی وجہ سے اور بڑھ رہی ہے۔ ہوائیں کچھ جگہوں پر 160 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔ لاس اینجلس میں لگنے والی آگ سے تادمِ تحریر 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ 12,000 سے زیادہ چھوٹی بڑی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اس علاقے میں تقریباً 35,000 گھر اور کاروبار بجلی سے محروم تھے۔ ایل اے کاوٗنٹی صحت کی ہنگامی صورتحال اور دھواں سے متعلق ایڈوائزری کے تحت ہے۔ علاقے میں تربیت یافتہ کتوں اور امدادی عملے کی مدد سے ملبے تلے دبے لوگوں کو بچانے کے لئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ نیشنل گارڈ کے 400 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جو سڑکوں کی بندش کھولنے اور حساس عمارتوں کے تحفظ میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
ابتدائی تخمینہ کے مطابق اس آگ سے امریکی تاریخ کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس میں 150 بلین ڈالر تک کا نقصان متوقع ہے۔ جن مشہور شخصیات نے اپنے گھر کھوئے ہیں، ان میں میل گبسن، لیٹن میسٹر، ایڈم براوڈی اور پیرس ہلٹن شامل ہیں۔ کاوٗنٹی کے حکام نے مطلع کیا ہے کہ تیز ہواوٗں کے چلنے کی توقع کی وجہ سے بدھ تک شدید آگ کا خطرہ ہے۔ موجودہ آگ کو شہر کی تاریخ میں سب سے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ تیز ہوائیں اور بارش کی کمی آگ کو بھڑکا رہی ہے لیکن ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی آگ لگنے کے امکانات کو مزید بڑھا رہی ہے۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کا شہر لاس اینجلس لگ بھگ 39 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے جس میں سے پانچ لاکھ افراد مسلمان ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جب اس بات پر شادیانے بجائے جا رہے ہے کہ امریکہ میں عذابِ الہی فلسطین میں تباہی کی وجہ سے آیا ہے، تو ان پانچ لاکھ مسلمانوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا؟ پھر جن 24 افراد کی لاس اینجلس میں ہلاکت ہوئی ہے کیا ان میں سے کوئی فلسطین میں ہونے والی تباہی میں براہِ راست شامل رہا؟
جنگلات کی بدولت لاس اینجلس میں جنگلی حیات کی بھی بہتات ہے۔ جلنے والے چرند پرند نے کیا فلسطین میں بم برسائے تھے؟ جلنے والے اشجار کیا فلسطین کے اسرائیلی دشمنوں کو آکسیجن فراہم کر رہے تھے؟ کیا یہ درخت، گلہریاں، چڑیاں، کوے، طوطے، ہرن، گائیں، بکریاں اور دیگر جانور مسیحی یا یہودی ہیں؟ درختوں، جانوروں اور انسانوں کی مرگ پر خوش ہونے والے کیا انسان کہلانے کے حقدار ہیں؟
کیا کہا جائے ہمارے ملک کے باسیوں کو، یہاں بسنے والے جید مولانا طارق جمیل نے کرونا کے پھیلاؤ پر کہا تھا کہ یہ عورتوں کے بیہودہ لباس پہننے کی وجہ سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مولانا صاحب کو کون سا لباس کیسا لگتا ہے۔ حوروں کے مہین لباس کو سراہتے ہوئے تو وہ تھکتے نہیں۔ قدرتی آفات کو لے کر فتویٰ دینا عام پاکستانیوں کا کام بھی ہے۔ 2005 میں یہاں تباہ کن زلزلہ آیا، 2010 اور 2023 میں تباہ کن سیلاب کو ہم بھگت چکے ہیں جس سے اربوں روپے کا نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی اور حیوانی جانوں کا بھی نقصان ہوا۔ مصیبت کے ان دنوں میں بین الاقوامی کمیونٹی پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ نے پاکستان کی کھل کر مدد کی۔ نیک دل عورت انجلینا جولی سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ عورتوں اور بچیوں کے ساتھ کھڑی تھی۔
ان قدرتی آفات کے دنوں میں میں نے خود کئی لوگوں سے سنا کہ ہمارے حکمرانوں کے کرتوت اچھے نہیں ہیں اس وجہ سے ہم پر یہ آفات آتی ہیں۔ کہنے والوں سے میرا یہی سوال ہوتا تھا کہ ان آفات کے ساتھ غریب شہری بے سرو سامان ہوئے ہیں یا ہمارے حکمران؟ کتنے غریبوں کی ان آفات میں جانیں چلی گئیں؟ کتنے نیک لوگ ان آفات سے زندہ در گور ہوئے؟ کتنے بچے ان آفات سے متاثر ہوئے؟ کتنی غریب عورتیں چار دیواری سے محروم ہوئیں؟
پاپائے ٗ اعظم پوپ فرانسس نے کرسمس کی دعائیہ تقریب میں غزہ میں انتہائی سنگین صورتحال کی مذمت کرتے ہوئے اسیروں کی رہائی اور جنگ زدہ علاقے میں جنگ بندی کی اپیل کی۔ انھوں نے یوکرین اور سوڈان میں امن کی اپیل بھی کی۔ 88 سالہ پوپ نے لبنان، مالی، موزمبیق، ہیٹی، وینزویلا اور نکاراگوا سمیت تمام جگہوں پر سیاسی، سماجی اور فوجی تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
پوپ فرانسس نے اسرائیل پر اپنی تنقید کو جاری رکھتے ہوئے 9 جنوری کو دوبارہ اسرائیل میں انسانی صورتحال کو انتہائی سنگین اور شرمناک قرار دیا ہے۔ اپنے ایک معاون کے ذریعے 184 ملکوں سے سفارتکاروں سے سالانہ خطاب میں انھوں نے غزہ میں سردی سے ہونے والی اموات کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا میں جنگ بندی اور اسیروں کی رہائی کی اپنی اپیل کی تجدید کرتا ہوں۔ میں فلسطینی آبادی کو وہ تمام امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں جس کی اسے ضرورت ہے۔
جنگ ہمیشہ ناکام ہوتی ہے۔ عام شہریوں بالخصوص بچوں کا ملوث ہونا اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی میں دونوں فریقین کے درمیان برائی ہی فاتح بن کر ابھرتی ہے۔ ہم شہریوں پر بمباری اور ان کی بقا کے لئے بنیادی ڈھانچے کی تباہی کو کسی بھی طور قبول نہیں کر سکتے۔ ہولی سی میں اسرائیلی سفیر بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
پاپائے ٗ اعظم پوپ فرانسس نے اتوار کو اپنے خطاب میں لاس اینجلس کے لو گوں سے ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست کہا، میں آپ سب کے لئے دعا کر رہا ہوں۔ میں لاس اینجلس کاوٗنٹی، کیلیفورنیا کے رہائشیوں کے دل سے قریب ہوں جہاں حالیہ دنوں میں تباہ کن آگ بھڑک اٹھی ہے۔ انھوں نے سینٹ پیٹرز سکوائر میں جمع ہزاروں لوگوں سے لاس اینجلس کے لوگوں کے لئے دعاؤں کی اپیل کی۔
اس سے پہلے پوپ فرانسس نے ویٹیکن سیکریٹری آف سٹیٹ کے ذریعے لاس اینجلس آرچ بشپ ہوزے ایچ گومز کو ٹیلی گرام میں کہا آگ سے ہونے والے جانی نقصان اور وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی سے غمزدہ خاندان اور متاثرہ کمیونیٹیز کو پوپ فرانسس اپنی روحانی قربت کا یقین دلاتے ہیں، وہ اس تمام سے انتہائی افسردہ ہیں۔ وہ ہنگامی خدمات کے اہلکاروں کی امدادی کوششوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں۔
سائنس کی بیش بہا ترقی کے باوجود انسان نے قدرتی آفات پر پوری طرح قابو نہیں پایا۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمی تغیرات نے صورتحال کو زیادہ سنگین کر دیا ہے اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ جنگ گلوبل وارمنگ کی بہت بڑی وجہ ہے۔ فتویٰ بازی سے بچنے اور مغربی دنیا کی تباہی پر خوش ہونے کی بجائے مثبت سوچ رکھنے اور سنجیدہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ اور قدرتی آفات سے بچنے کو کیسے ممکن بنایا جائے، یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور انسانوں کو اس پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مثبت سوچ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بنی نوع انسان کی سلامتی کے ساتھ ساتھ اس کائنات کی بقا ء کے لئے ضروری ہے۔
*******