سردیوں کا موسم تھا۔ رات کے پہر لمبی اور گہری نیند میں ڈوب چکے تھے۔ساری دنیا پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہر سو کالی گھٹاؤں نے زمین و آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ سرد ہواؤں نے لوگوں کو گھروں پر رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔
سر شام چرند پرند الغرض ہر کوئی اپنے اپنے گھر کی منزل لے چکا تھا۔شام کی خاموشی اور رات کی خوفناک دہشت نے عجیب طرح کا خوف و حراس پھیلا رکھا تھا۔اندھیرے نے زمین تک اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ساری فضا دھند میں تبدیل ہو کر تمام بستیوں کو اپنی چادر میں لپیٹ چکی تھی ۔سڑکیں اور راستے ویران ہو چکے تھے۔بستیوں کے قریب گھنے جنگلات تھے جن سے طرح طرح کی آوازیں قوت سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔ ان آوازوں میں خوف ، دہشت اور بجلی گرجنے جیسی گرج چمک تھی۔
خدا کی پیدا کی ہوئی ہر چیز اپنے اپنے ٹھہرائے ہوئے وقت کے مطابق متحرک ہو چکی تھی۔اس بات سے کون انکار کر سکتا تھا ؟ کہ جہاں قانون قدرت ہے وہاں وقت اور موسم کے مطابق ہر چیز اپنے مافی الضمیر کے تحت آزادی رائے کا اظہار کرتی ہے۔
شب کے پہروں میں بستیوں تک ایسی آوازوں کا بے ہنگم شور و غل کانوں کے راستے داخل ہو کر جسم و روح میں ایک تلاطم مچا رہا تھا۔لوگ اپنی اپنی اقدار و روایات اور تہذیب و تمدن کے مطابق حفاظتی اقدامات کے تحت اپنے اپنے گھروں میں میٹھی نیند سو رہے تھے۔ان کے خراٹوں کی آوازیں کمروں میں ایسی گونج پیدا کر رہی تھی۔جیسے کوئی خراد کی مشین چل رہی ہے۔ اکثر و بیشتر کمروں کے اندر یہ ان غریبوں کی آوازوں کا شور شرابہ ہوتا ہے۔جو دن بھر کی محنت مزدوری کے باعث اپنے جسم و روح کو سکون دینے کے لیےاپنے بستر پر لیٹ جاتے ہیں۔
خواب نگر میں یہ عجیب طرح کے واقعات ،مشاہدات، تجربات، قصے، کہانیاں، داستانیں اور پیش گوئیاں چہل قدمی کر رہی تھی۔جو ذہن کی پردہ سکرین پر ایک فلم کی طرح ساری داستان سنا کر انسان کو ایسے وہم و گمان میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ جہاں صبح ہونے تک سوچ پیچھا نہیں چھوڑتی۔ایک رات اچانک میری روح رات کے تاریک پہروں میں گم ہو جاتی ہے۔ میں اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑا اونگھ رہا تھا۔ میرا جسم آسمان اور زمین کے درمیان مچھلی کی طرح تیر رہا تھا۔ایک طاقت مجھے فلک کی طرف کھینچ رہی تھی۔جبکہ دوسری مجھے زمینی حقائق سے آگاہ کر رہی تھی۔
مجھے زمین پر عجیب سا شورو غل ، ہنگامہ آرائی، لڑائی جھگڑے ، فتنے و فسادات ، الزام تراشیاں ، خونریزیاں ، ناچاقیاں ، ناپاکیاں اور قتل و غارت نے اچانک مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔میں وقت کی تابعداری کرتے ہوئے تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
دنیا کی بڑھتی ہوئی دلچسپیوں اور رنگینیوں نے ہر کسی کو خواہشات کے لبادے میں اس طرح لپیٹ رکھا تھا۔جیسے گرم بستر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔میں اپنے بستر پر نیم حالت میں ایسے واقعات کا نقشہ بنا دیکھتا ہوں۔جہاں مجھے جگہ جگہ ممنوعہ علاقہ کے لکھے ہوئے بڑے بڑے اسائن بورڈ نظر آتے ہیں۔ جن پر سرخ روشنائی موٹے حروف کی شکل میں مجھے خبردار کر رہی تھی۔جب میری حد نگاہ مذکورہ اسائن بورڈ پر مرکوز ہوتی ہے۔تو اس روشنائی کا عکس میری آنکھوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ میری آنکھوں میں بالکل آشوب چشم کی طرح پھیل جاتا ہے۔ یہ پھر آہستہ آہستہ وبائی مرض میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اب میرے سامنے جسمانی اور روحانی آزمائشیں سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔میں جس بھی گلی یا کوچے سے گزرتا ہوں۔وہاں شور اور ہنگامہ سنائی دیتا ہے۔ میں اپنی آنکھوں کے سامنے عجیب طرح کے واقعات دیکھتا ہوں۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر الزامات کا تھوک پھینک رہا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھ کر ہر کسی نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنا شروع کر دی۔ اپنے تحفظ اور آزادی رائے کے لیے ایک تحریک چلانا شروع کر دی۔ فسادات نے منہ چڑھانا شروع کر دیا۔ہم آہنگی اور ملنساری اجنبی ماحول میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
لوگوں نے ایک دوسرے کو کوسنا شروع کر دیا۔بغاوتوں کی لکیریں کھینچنا شروع کر دیں۔تعلقات و روابط کا حدود اربعہ مقرر کر دیا۔زبان و بیان میں تضادات کا زہر بھر گیا۔گدی نشینوں نے اپنی نسلوں کو براجمان رکھنے کے لیے انہیں مصنوعی سپرنگ لگا دیے۔شاہی طبقے نے اپنی رہائش گاہیں الگ کر لیں۔جب کہ غریب کھڈوں اور جھونپڑیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔تنگ نظری اور ذہنی آلودگی نےساری فضا کو سوگوار بنا دیا۔
ہر کوئی تدبیروں کے جال بچھا کر ایک دوسرے کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔معمولی باتیں عدم برداشت کا شکار ہو کر لڑائی جھگڑوں اور قتل و غارت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔سلامتی کی دعا دینے کی بجائے ہر زبان نے ایک دوسرےپر لعنت کا زہر پھینکنا شروع کر دیا۔ظاہری پاکیزگی باطنی پاکیزگی پر غالب آگئی۔ساری فضا میں گناہ مکھیوں کی طرح بھنبھاتا نظر آتا ہے۔انسانوں کاباہر نکلنا اور سانس لینا دشوار ہو گیا۔امن و امان کی صورتحال بگڑ کر ہنگاموں کی نظر ہو جاتی ہے۔قومیں ایک دوسرے کو غلام بنانے کے منصوبے باندھتی ہیں۔مذکورہ تمام واقعات اور حادثات دیکھ کر میری روح بے چین اور بیزار ہو کر خواب نگر میں واپس آ جاتی ہے۔میں پھر کوشش کر کے متبادل راستہ بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تاکہ میں وہاں جا کر دیکھوں کہ اصل ماجرہ کیا ہے؟
کیا حقیقت اور کیا افسانہ ہے؟ اچانک پھر ایک اور رکاوٹ میرا تعاقب کر کے مجھے روک لیتی ہے۔اس امر کے باوجود میرے جذبات مجھے پھر سے توانائی مہیا کرتے ہیں۔ ایک تجزیاتی رپورٹ تیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔میں کاغذ قلم اٹھا کر ایک ایک تلخی اور کڑواہٹ لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔
زندگی کی اس تلخ حقیقت کے سامنے مجھے جگہ جگہ احساس کمتری کے کھڈے ، کانٹوں کے ڈھیر ، ناکامیوں کے بوجھ اور جھوٹ کے بنے پل نظر آتے ہیں۔تو میں پھر دل برداشتہ ہو کر واپسی کا ارادہ کر لیتا ہوں۔ اچانک میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔
اس دوران میں اپنے پاؤں بیڑیوں میں جکڑے دیکھتا ہوں۔میں بے جان ہو کر گر پڑتا ہوں۔میرے وجود پر دکھوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
میرا سر مارے درد کے مارے پھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔
آنکھوں میں سرخی پھیل جاتی ہے۔کبھی سفید اور کبھی کالا موتیا آنکھ مچولی کر کے غائب ہو جاتا ہے۔مجھے تنہائی کی مزید مواقع میسر آ جاتے ہیں۔میں ان لمحات میں ایک عجیب منظر دیکھتا ہوں۔میرے سامنے ایمان کا ترازو ہے۔اس کے باٹ اچانک شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں اس ماجرے کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں۔ہائے یہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ میرے سامنے لوگوں کے ہاتھوں میں رشوت کی مہندی اور پاؤں میں کانٹوں کے جوتے پہنے نظر آتے ہیں۔ ان کا اٹھتا ہوا ہر قدم دوسروں کے راستے میں کانٹے بچا رہا تھا۔ ذہنوں میں خوفناک کرب بڑھ رہا تھا۔ اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے۔میں اپنے آپ کو ایک بیمار شخص کی طرح دیکھتا ہوں۔آنکھوں میں سوجن ہے، دماغ پر بوجھ ہے ، ہاتھوں میں بے سکتی ہے ، ٹانگوں میں لڑکھڑاہٹ ہے ، پاؤں میں چھالے ہیں اور دل کی دھڑکن بے قابو ہے۔میں بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھلتا ہوں۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے۔
اے دوست!
یہ تو خواب نگر ہے۔میں تجھے حکم دیتا ہوں۔کسی اہل خرد کے پاس جا۔اسے اپنا خواب بیان کر۔وہ تیرے لیے تعبیر کا دروازہ کھول دے گا۔
Great column