ایک غریب بستی میں ایک شاندار گاڑی آ کر رکی۔ ایک غریب لڑکا اس کار کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔ گاڑی کے مالک کے دل میں کیا آیا کہ لڑکے کو بلایا۔ گاڑی میں بٹھایا اور سیر کروائی۔ پھر پوچھا، ” گاڑی کیسی لگی؟” لڑکے نے کہا،” بہت اعلیٰ۔” پھر مالک نے کہا،” یہ گاڑی مجھے میرے دوست نے تحفے میں دی ھے۔ اب تم سوچ رہے ہوگے، کاش میرا بھی ایسا دوست ہوتا جو تمہیں ایسی گاڑی تحفے میں دیتا۔” لڑکے نے کہا،” نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ کاش میں بھی اپنے دوستوں کو ایسی گاڑیاں تحفے میں دے سکتا۔”
ساری زندگی ہم چیزیں اکٹھی کرنے میں گزر دیتے ہیں جبکہ ساتھ کچھ نہیں لے جا سکتے۔ سکندر اعظم جب مرنے لگا تو یہ وصیت کی کہ میرے ہاتھ کفن سے باہر رکھنا تاکہ معلوم ہو کہ خالی ہاتھ آیا اور خالی ہاتھ ہی گیا۔
مرنے کے بعد بھی تو سب کچھ دوسروں نے بانٹ لینا ہے۔ بہتر ہے کہ زندگی میں خود ہی بانٹ جاؤ۔ نہ کچھ لے کر آئے اور نہ لے کر جانا ہے۔ جو ملا اس پر خوش رہو کیونکہ یہ ہی بونس ھے۔ ہزاروں لوگوں کو تم سے کم ملا ہے۔ دنیاوی مال و منال سے خوشی نہیں ملتی۔ خوشی دینے سے ملتی ھے۔
اشفاق احمد نے ایک فقیر سے پوچھا،” کبھی دیا بھی ھے کہ بس مانگتے ہی رہے ہو؟” اس نے کہا،” ہوگا تو دوں گا، اپنے جوگا ہی کافی نہیں ہوتا۔” اشفاق احمد نے کہا،” جیب میں کتنے پیسے ہیں؟” فقیر نے کہا،” 100 روپے۔” اشفاق احمد نے کہا،” جاؤ جلیبیاں خرید کر سامنے بیٹھے بھوکے مزدوروں کو کھلاؤ۔” وہ فقیر یہ سب کر کے آیا۔ اور پھر بولا،” صاحب ہمیشہ مانگتا رہا ہوں آج دیا ہے تو دل کو عجب سکون آیا ہے۔ اب تک مانگتا تھا، آج داتا بن گیا ہوں۔”کیونکہ کتابِ مُقدس میں مرقوم ہے؛
دینا لینے سے مبارک ہے۔ (اعمال 35:20 )
دیا کرو تو تمہیں بھی دیا جائے گا۔ (لوقا 38:6)
نوٹ:( “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔تمام حقائق کا مشاہدہ، اعداد و شمار اور معلومات لکھاری کی اپنی ذمہ داری ہے۔”تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔)
*******