آٹھ فروری2024ء کو پاکستان کے بارویں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد عوام کے منتخب نمائندو ں پر مبنی صوبائی و قومی اسمبلی کی حکومتوں کے قیام کا عمل میں آ چکا ہے۔ 247ملین آبادی کے ساتھ پاکستان میں 128.6ملین رجسٹر ووٹروں کی تعداد ہے جن میں سے 45سال تک کی عمر والوں کی اکثریت ہے۔ایک تنظیم فافن (Free and Fair Election Network) کے مطابق حالیہ انتخابات میں ووٹرز کی شرح 47.6%تھی۔ انتخابات میں حصہ لینے والی 47فیصد آبادی پر مشتمل یہ نسل طلباء یونین، مزدور یونین اور ٹریڈ یونین کے کلچر سے نا آشنا ہے۔ انہوں نے اظہار ِ رائے پر قدغن، انسانی آزادیوں پر پابندیوں اور سیاسی مخالفین پر دشنام طرازی کے ماحول میں آنکھ کھولی ہے۔
موجودہ انتخابات اِس لئے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں کہ اِنہی کے باعث ہمارے ہاں بد ترین سیاسی و آئینی بحران کے زیر اثر 2023 ء میں انتخابات کا ٹوٹا ہوا تسلسل بحال ہوا ہے۔ حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (PTI) نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں (92) حاصل کی ہیں جبکہ مسلم لیگ نواز (PML (N)) نے 75 نشستیں اور پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) نے 54نشستیں حاصل کی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اِن انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی تا ہم بڑی دھاندلی کر کے ا نہیں پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی نے بھی یہ اُن کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔
بین الاقوامی ادارے ”انٹر نیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹرول سسٹم“ (IFES) کے مطابق”الیکشن کمیشن آف پاکستان“ ایک مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تاہم یہ ادارہ آج تک اپنے ملک میں عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا۔ اِس تناظر میں حالیہ انتخابات کے ذر یعے منتخب ہونے والے ا رکان کی کلیدی ذمہ داری ہے کہ مستقبل میں قابل بھروسہ اور صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے باہمی اتفاق ِ رائے سے مؤثر انتخابی اصلا حات کی جائیں۔
پاکستان کو آئی ایم ایف (IMF)کی طرف سے د یے گئے بیل آؤٹ پیکج (Bailout Package،) کی مدت اپریل 2024ء میں ختم ہو رہی ہے۔ چنانچہ اِس وقت قومی معیثت کو بحال کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔موجودہ حکومت اِس سلسلہ میں غافل نہیں اور اپنے طور پر ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں جس کے مثبت نتائج کی امید کی جا سکتی ہے۔
علاوہ ازیں ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پا نے اور بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کو معمول پر لائے بغیر بیرونی سرمایہ کاری لانا آسان نہیں ہو گا چنانچہ اِن مسائل کے حل کے لئے حکومت کو سیاسی مکالمہ کا آغاز کرتے ہوئے دیگر فریقین کے لئے سیاسی گنجائش دینے کا راستہ اپنانا ہو گا۔سچ تو یہ ہے کہ انتخابات صرف اقتدار کے حصول سے بڑھ کر تقسیم کی سیاست اور قطبعیت کو کم کر کے انسانی حقو ق اور جمہوریت کے فروغ کے لئے اپنی ذمہ داری نبھانا ہے۔ حزب ِ اختلاف کو بھی ا س امر کا ادراک کرنا ہوگا کہ سیاسی مکالمہ کا راستہ اپنائے بغیرسیاسی گنجائش حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ چنانچہ ا پنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کرتے ہوئے ڈائیلاگ کے ذریعے اپنے لئے راستے بنائیں جائیں۔
حالیہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت کو فیصلہ کُن اکثریت حاصل نہیں ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی سمیٹی تھی چنانچہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے اُسے حکومت سازی کی دعوت دی تھی تاہم بعض و جوہات کے تحت پی ٹی آئی کا کسی دیگر جماعت کے ساتھ الحاق کرنا ممکن نہیں ہو پایا تو پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مل کر حکومت بنا ڈالی ہے۔بعض تجزیہ نگاروں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا مؤقف ہے کہ پاکستان کو درپیش کثیرالجہت مسائل کے حل کے لئے کسی ایک جماعت کو فیصلہ کُن اکثریت کا ہونا ضروری ہے۔ یوں مسائل نہیں ہوں گے۔
یوں لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار عوام کی منشا کی سمت دیکھنے میں ایک پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ یہ بکھرا ہوا غیر واضح مینڈیٹ عوام کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے گھمبیر مسائل کو کوئی ایک سیاسی جماعت حل نہیں کر سکتی۔ چنانچہ پاکستانی عوام نے منتخب ارکان کو ا جتماعی دانش کا استعمال کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کی قوت کو اکٹھا کر کے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی ذمہ داری عطا کی ہے۔ ملک کے سیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لئے وسیع بنیاد پر اجتماعی سیاسی بصیرت درکار ہے۔ قابل قدر امر ہے کہ حال ہی میں حکومت نے مذاکرات کے لئے اپوزیشن کے طرف ہاتھ بڑھایا ہے۔ اِس وقت اپوزیشن کی ا،س پیشکش کی چھوٹی سی قبولیت کی ہاں پاکستان کو موجودہ سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔
مصنف کے بارے میں: جنوبی پنجاب کی تحصیل میاں چنوں کے مضافاتی گاؤں سٹونزآباد سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن عطاالرحمن سمن 2002 سے قومی کمیشن برائے امن و انصاف میں تحقیق و اشاعت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ماہنامہ “نیاتادیب” لاہور/ملتان کے علاوہ مختلف جرائد میں انسانی حقوق کے موضوعات پر خیال آرائی کی بنا پر انسانی حقوق کے کارکنان اور عام کاری میں پہچان رکھتے ہیں۔
*******