میں کائنات کی عکاسی ، تیرے دیس کا باسی اور زندگی کا ساتھی جو ہر لمحہ کے ساتھ خیالوں میں محوِخیال ہو کر تیرے لیے بے انتہا کو مجسم کرکے صفحہ قرطاس پر نمو کرتا ہوں۔ اگر میں نہ اپنا فرض نبھاوں تو آج تیرا بھی یہ مقام نہ بن پاتا۔
تنہائی کے پل میں تیرا ہم سفر ، باطن کے رنگ کی اک جھلک جو من کی آواز بن کے اُبھرتا ہوں۔
دیکھ اے نادان ! تجھے جس آغوش محبت میں پروان چڑھنے کا موقع ملا اس کی ایک آہ کا نظارہ کر ، جو تجھ کو پلکوں پر بیٹھا کر ایک نہیں کئی واقعات سُناتی ، وہ جذبہ ، وہ جنون ، یہ رنگ وہ خوشبو جس نے احساس کے مگن میں فلک کے شگن پر چمک کر تیرے اندر کی آواز بن گیا۔
دیکھو مجھے دیکھو! جب تمھاری جیب میں ہوتا ، اک جھلک میں دوسروں کے سامنے چمکتا۔ اس غرض سے تیری عزت کرتا ، کچھ ہو نہ ہو دیکھنے والے کے دل میں تیرا خیال بنتا ہوں کہ میں ہوں۔ اس اندازے سے ایک آواز ضرور آتی ہے جو تیری عزت میں اضافہ کرواتی ، جانے نہ جانے یہ ضرور کہوں گا تیرے ساتھ قلم جھانکتا ہے۔
یہ ہرگز ایسا نہ ہے یہ نبیوں کی میراث کا اثاثہ ہے کچھ تو سمجھے نہ جانے پر کیا کہوں؟ علم بالدوا اور علم بالدعُا میرے منہ سے نکلا ہے۔ میں نے تیرے ہاتھ کے آنگن میں وہ درس دیا جس نے عزت کا مقام اور بزرگ کا روپ ملایا۔ ہرطرف ایک صدا اور من کی بھڑاس جس نے نکلوائی وہ قلم کے روپ میں منظر عام آئی کیوں کہ قلم جھانکتا ہے۔ زمانے کے بدلتے تیور ایک نہیں کئی روپ لیے من وعن آج کئی نظریات کے حامل ہو سکے تو کچھ ان پر ایک نظر کرو۔ ایسا کیا ہوا جو یہ المیہ ہوا دیکھ کے سب عرض کرتا ہوں۔
” میرے رب کی مجھ میں صدا آئی ، اے قلم تیرے کھاتے میں خدمت کی ادا آئی ، کچھ ہو نہ ہو اس ادا کو صدا بنا کر عاجزی کا سبق اس کو سیکھاو جو ہو سکے اس کے ہاتھ کا دامن کہلواو تاکہ دیکھ کر جانے کہ قلم جھانکتا ہے۔”
روز ازل سے رب کا اعتبار ہوں ، راز گُل میں چُھپ کر بیٹھا پر پتیوں کے روپ میں خوشبو دار ہوں، بکھر کے بھی اصلیت سے انکار نہ کیا تیرے پاوں نے جو روندا۔ دانہ ، کیھتی ، باراں ، حاصل سب لاحاصل ہو کر پھر لا میں جاچھپے تو کیسے نہ ہو کہ آپ سے تم اور اس سے پھر تو ہوئے۔ آج کا سبق پڑھ لو تم بھی کہیں پھر نہ کہنا کاش ایسا نہ ہوتا۔ ایک بار موقع ہوتا ، کرکے دکھاو پھر سے کوئی ایسا عمل۔ اے دنیا والو ! ضمیر کو جگا کر رکھنا، جاگنا اور دُعا کرنا کیونکہ قلم جھانکتا ہے۔
جدیدیت کے پیارو!
عقل و دانائی کے شاہکاور ایک بات ذہن میں رکھو میرا نام قلم ، میری طاقت اتنی کی کسی کے مرنے کا فتویٰ دیتا ہوں تو ٹوٹ کر بکھر جاتا ہوں۔ میرے اندر اتنا خُدا کا خوف ، انسان کی عزت کا شوق مطلب یہ میرے رب کی وہ کاریگری جو خود اپنے ہاتھ سے تخلیق ہوئی۔ اب کی بار بتاتا چلوں ، دس فیصد نظر آتا ہوں بقیہ خفیہ پڑا ہوتا ہوں۔ تمھاری نظروں سے اوجھل وہیں جھانک رہا ہوتا ہوں۔ سمجھ جاو جو دکھاتا ہے وہ بِکتا ہے۔ درس و تدریس میں جتنا تم مجھے بدنام کرتے ہو، تم تو اس قابل ہی نہیں کہ تمھیں اخلاقیات آئے۔ تعلیم کو تجارت بناکر اس طرح بیچا کہ حق رہا نہ عزت میں نے کبھی حد وقعت عبور نہ کی۔ دیکھو اور سنو میں کیا کہتا ہوں ۔۔۔عزت کا مقام ، بولنے کا فن ، جینے کا سلیقہ ۔۔۔
ایک لمحہ کے لیے سوچو اور دیکھو میری زندگی کی طرف دھیان کرو ، میرا رُخ نیچے پر دیکھتا دائیں بائیں ، آگے اور پیچھے، وجہ مشاہدہ میری ضرورت ، تجربہ میری غرض ، آگاہی میرا مقصد اور جھکنا میرے رب کی طرف سے مجھے پہ فرض۔۔۔اس حالتِ زندگی سے ہی سیکھو چلتے وقت عاحزی کا روپ لیے تمھارے ہاتھوں میں وہی اسلوب جو تم کی داستان بن کر زمانے کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔
زمین پہ چلنا سیکھو تو نکل جاؤ گے
” سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے”
میں صرف ایک ظاہری چیز نہیں بلکہ باطن کی آواز ہوں، عزت اور وقار ہوں ، ظاہری و باطنی خود دار ، پیشہ تخلیق کار ، جینے کا معیار ، فصلِ آب دار اور زندگی کا ساز ۔۔۔جس ساز سے دھن نکلے ، حرف سے لفظ بنے ، زندگی کا روپ پڑے صرف یہی ہے۔ یہ آلہ انسان کا خیر خواہ پر سمجھا کب ، عزت کا فلسفہ پر سوچا نہیں ، من کی آواز لیکن سُنی نہیں ، ایمان کی پیاس پر محسوس نہیں کی، زندگی کی اُمید مگر لی نہیں آخر یہ کیسا بکاؤ ہے ؟
نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******