اس کے ذہن میں عید کا پہلا تصور وہ منظر ہے جس میں وہ ہلکے گلابی رنگ کی فراک پہنے ہوئے ہے۔ یہ فراک کل شام تک بالکل سادہ تھی جسے دیکھ کر وہ اداس ہو گئی تھی، کیوں کہ اس کے لیے تو عید کا مطلب ہی خوشی، رنگ اور محبتیں ہے۔ تو پھر عید پر اتنی سادہ فراک وہ کیسے پہنے گی جس میں کوئی چمک دمک ہی نہیں۔ لیکن عید کی صبح جب ماں نے اسے جگایا تو وہ فراک دیکھ کر حیران رہ گئی۔ رات کے کسی پہر ماں نے اس میں جھلمل ستارے ٹانک دیے تھے، جیسے اس کی ننھی خواہشوں پر چاندنی برسا دی ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سادہ ہاتھ لیے سونے والی بچی کے ہاتھوں میں اب مہندی بھی لگی ہوئی تھی۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ ماں نے ساری رات جاگ کر نہ صرف گھر کو بلکہ اس کی عید کو بھی جگمگا دیا تھا۔
ماں نے اسے تیار کیا، آنکھوں میں لمبی لمبی ڈنڈیوں والا کاجل ڈالا جس کا سب بچے مذاق اڑاتے تھے لیکن ماں کہتیں کہ تمہاری آنکھیں اسی لیے اتنی بڑی بڑی اور خوب صورت ہیں کہ تم آنکھوں میں کاجل ڈالتی ہو اور وہ خوش خوش کاجل لگوا لیتی۔ماں کی جادوگری صرف یہیں تک محدود نہیں تھی۔ انھوں نے رات کے آخری پہر جاگ کر شیر خورمہ اور شامی کباب بھی تیار کر لیے تھے، جن کی خوشبو سے گھر مہک رہا تھا۔ چھوٹا سا گھر کسی جادوئی محل کی مانند چمک رہا تھا، صوفے کے کور، پردے، چادریں—سب کچھ اجلا، نکھرا اور خوب صورت۔ وہ والد صاحب کو مہندی دکھا کر باورچی خانے میں چلی آئی۔ والد صاحب نے اس کی ننھی ہتھیلیاں چوم کر اس کی تعریف کی تھی جس پر وہ خوشی سے پھولی نہ سمائی۔ اس نے باورچی خانے میں ماں کی مدد کرنی چاہی مگر ماں نے مسکرا کر اسے منع کر دیا اور کہا: ”عید تو بچوں کی ہوتی ہے، تم بس خوش رہو اور ہاں! کپڑے گندے نہ کرنا۔” اور پھر سارا دن ماں نے اسے کوئی کام نہ کرنے دیا۔
گھر میں مہمانوں کی آمد جاری ہے، سب شیر خورمہ اور شامی کباب کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے۔ والد صاحب کے احباب میں کچھ تو صرف ان ذائقوں کی خاطر عید کے دن آتے تھے، خاص طور پر حنیف چچا ( حنیف اسعدی )اور نصیر ترابی چچا، جو ہر سال کہتے، ”بہن، آپ کے ہاتھ کے بنے کھانوں کے بغیر عید کا لطف ہی نہیں آتا۔”ماں خود کبھی نہ مہندی لگاتیں اور نہ کانچ کی چوڑیاں پہنتیں۔ والد صاحب کبھی کبھی ضد کر کے عید پر ماچس کی تیلی سے ان کی ہتھیلی پر ٹکیا لگا دیتے مگر انھیں مہندی، چوڑیاں، زیور پسند نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود چوں کہ وہ جانتی تھیں کہ اسے مہندی، چوڑیاں، چمک دمک پسند ہے تو وہ اس کے لیے نہایت کم بجٹ میں بھی خدا جانے کیسے ہمیشہ سارا اہتمام کر ہی لیا کرتیں۔ جب وہ مہندی لگوا کر واپس آ جاتی تو اس کے سارے کام ماں کرتیں۔ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، پیاس لگنے پر پانی پلاتیں تاکہ مہندی نہ خراب ہو اور رنگ بھی خوب اچھا گہرا آئے۔
خدا جانے کتنی عیدیں گزر گئیں۔ پھر وہ عید بھی آ گئی جس کے فوراً بعد اس کی شادی تھی۔ سسرال سے اس کی عیدی آ چکی تھی۔ اتفاق سے سب سسرال والے ملک سے باہر تھے تو ساری شاپنگ اس کے منگیتر نے خود ہی کی تھی۔ عیدی آئی تو مارے خوشی کے ماں حیران رہ گئیں۔ عیدی بتا رہی تھی کہ کس سلیقے اور چاؤ سے ایک ایک چیز تیار کی گئی ہے۔ ماں خوشی سے نہال ہو گئیں اور بار بار خوشی سے کہتی رہیں کہ ”جیسے میں اپنی بچی کے لیے چیزیں چاؤ سے بناتی رہی، ویسی ہی عیدی آئی ہے۔ اب مجھے کوئی فکر نہیں” اس کی شادی کا وقت آ پہنچا۔ شادی سے ایک دن پہلے وہ مینا بازار سے مہندی لگوا کر آئی۔ ماں نے نہایت شوق سے مہندی دیکھی اور کہا “ارے! پیروں پر مہندی نہیں لگوائی؟” اس نے حیران ہو کر دونوں پیر آگے کرتے ہوئے کہا، “لگوائی تو ہے! یہ دیکھیے۔” مگر ماں کو تشویش ہے کہ پیروں کے تلوؤں پر تو مہندی لگوائی ہی نہیں۔ وہ بولیں ” تمہیں تو پیروں پر مہندی بہت پسند ہے اور وہ دلہن ہی کیا جس کے پیروں کے تلوؤں پر مہندی نہ لگی ہو۔ تمہارے پیر بہت خوب صورت ہیں مہندی خوب سجے گی۔” اس نے افسوس سے بتایا کہ اگر پیروں پر مہندی لگوا لیتی تو گاڑی تک کیسے آتی، اسی لیے دل چاہنے کے باوجود نہیں لگوائی۔ ماں اب طریقے سوچنے لگیں کہ کیا کیا جائے۔ انھوں نے چھٹ پٹ مہندی منگوا کر گھول کر رکھ لی اور رات کو سونے کے لیے لیٹنے کے بعد اس کے پیروں کے نیچے دو تکیے رکھ کر پیر لمبے کروائے اور اپنے ہاتھوں سے مہندی لگانے لگیں۔ اسے بہت عجیب سا لگا۔ وہ ماں کو منع کرتی رہی کہ کسی بہن سے لگوا لے گی آپ پیروں کو ہاتھ نہ لگائیے۔ لیکن ماں اپنے ہاتھوں سے مہندی لگاتی رہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی خوشی دیکھنے والی تھی۔
بدقسمتی سے بجلی چلی گئی، یو پی ایس تو تھا نہیں اس لیے ماں اخبار سے اسے پنکھا جھلتی رہیں۔ وہ بار بار کہتی رہی کہ مہندی کافی حد تک سوکھ چکی ہے اور اب وہ خود پنکھا جھل سکتی ہے لیکن ماں کو ہرگز گوارا نہ ہوا کہ وہ مہندی لگے ہاتھوں سے کوئی کام کرے۔اس کی شادی ہوگئی۔ پیروں پر کارخانے کی بنی کیمیکل سے پاک مہندی ایسی لال رچی کہ سب نے ہی تعریف کی۔ سب سے زیادہ رنگ بھی اسی مہندی کا آیا جو ماں نے لگائی تھی۔ اب ماں بہت خوش ہیں، دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی ہیں کہ ہاں اب لگ رہے ہیں کہ یہ ایک سہاگن کے پیر ہیں۔شادی کے بعد سسرال میں اس کی پہلی عید پر ماں میکے سے اس کی عیدی لائیں۔ سر سے پیر تک ہر چیز اور اس کی پسند کے عین مطابق۔ شوہر کی عیدی بھی ہے۔ شیر خورمہ کا سامان، میوہ سب کچھ۔ امی نے اسے سمجھایا کہ اسے اپنی ماں کو ان تکلفات کے لیے منع کرنا چاہیے تھا۔ ابھی دو بیٹیاں اور بیاہنی ہیں اتنا خرچہ مناسب نہیں۔ اس نے امی کو بتایا کہ اس نے تو بہت سمجھایا لیکن ماں نہیں مانیں۔
سسرال میں پہلی عید اور اس کی طبیعت سخت خراب۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ اس کا کسی چیز کو دل نہیں چاہ رہا لیکن امی اور ماں کے اصرار پر مہندی لگوانے چلی گئی۔ مہندی لگوا کر واپس آئی اور چمچے سے کھانا کھانے بیٹھی تو اچانک نوالے اس کے حلق میں پھنسنے لگے۔ یہ پہلا موقع تھا جب وہ مہندی لگوانے کے بعد خود کھانا کھا رہی تھی، خود پانی پی رہی تھی۔ وہ بے اختیار ماں کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ آج وہ جان گئی کہ اس کی ماں کیا ہے۔
اب وہ ہر عید پر شیر خورمہ اور شامی کباب بنانے لگی ورنہ اس کی شادی تک تو ماں اسے عید والے دن کوئی کام ہی نہیں کرنے دیتی تھیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ اب وہ ہر سال وہ کاپی نکالتی ہے جس میں ماں نے اپنے ہاتھ سے ان سارے کھانوں کی ترکیبیں لکھ کر اسے دی ہیں جن کے بارے میں دھوم تھی کہ وہ اس کی ماں سے اچھا کوئی نہیں بنا سکتا۔ ان میں شیر خورمہ اور شامی کباب کی ترکیب بھی ہے۔ وہ پانچ سال کی عمر سے باورچی خانہ سنبھالنا سیکھ گئی تھی، ماں نے اسے سب کچھ پکانا سکھایا، پھر مختلف جگہ سے پیسے دے کر مختلف کوکنگ کلاسز دلوائیں، وہ کھانا پکانے میں ماہر ہو گئی، اتنی ماہر کہ اس کے والد خوش ہو کر کہتے کہ “آج تو تم نے بالکل اپنی ماں جیسا کھانا بنایا ہے۔” اور انعام میں پیسے دیتے۔ لیکن ماں کو پھر بھی فکر کہ سسرال میں کہیں بیٹی کبھی پریشان نہ ہو جائے اس لیے ساری ترکیبیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر باقاعدہ کاپی بنا کر دے دی۔
آج عید ہے۔ ماں کے جانے کے بعد پہلی عید۔ آج پہلی مرتبہ اسے کوئی خوشی نہیں ہے بلکہ عجیب سی وحشت ہو رہی ہے۔ بچپن کی پہلی عید سے آج تک کی عید کی ہر ہر بات یاد آ رہی ہے۔ اس نے نہ تو کپڑے بنائے ہیں، نہ مہندی لگوائی ہے۔ ہمت ہی نہیں ہوئی، دل ہی نہ چاہا۔ مہندی لگوا کر تو شاید وہ پاگلوں کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگتی۔ بس اس نے ماں کی یاد میں نہایت سنبھال کر رکھی ہوئی وہ کاپی نکالی ہے اور ہر عید کی طرح دیکھ دیکھ کر ماں کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی ترکیب سے شیر خورمہ اور شامی کباب بنائے ہیں۔ وہ جانتی ہے کہ ہر سال کی طرح اس کے شیر خورمہ اور شامی کباب کی خوب تعریفیں ہوں گی۔ تشکر سے اس کی آنکھیں چھلکی پڑ رہی ہیں۔وہ سوچ رہی ہے کہ ماں نے اسے سب کچھ سکھایا بس اپنے بغیر جینا نہیں سکھایا۔ 💔
*******