| کوئی قوت طلسماتی کمر جھکنے نہیں دیتی |
| شگفتہ گفتگو تیری مجھے اُٹھنے نہیں دیتی |
| سفر جاری ہے جیون کا رہے گا تا ابد جاری |
| تمہارے وصل کی خواہش مجھے رُکنے نہیں دیتی |
| بہت سے کام کرنے کے ابھی باقی ہیں دُنیا میں |
| مگر یہ ہجر کی ساعت مجھے کرنے نہیں دیتی |
| اُسے کہنا رہِ غم کی مسافت جان لیوا ہے |
| بدن میں خون کا قطرہ کوئی رہنے نہیں دیتی |
| اُسے جاویدؔ کہہ دینا فقط اب جان باقی ہے |
| تمہاری دید کی حسرت مجھے مرنے نہیں دیتی |
کوئی قوت طلسماتی کمر جھکنے نہیں دیتی


