اٹھارہ مارچ کے ایک اخبار میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تحریر پڑھی تو راقم کا دل چاہا اس حوالے سے کچھ مزید لکھا جائے۔ خواتین کے مساوی حقوق کی جدوجہد لمبی ہے اور انسانی تاریخ میں کئی ماہ و سال اور دن ایسے ہیں جو خواتین کے حقوق کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ مثلاً1848میں غلامی مخالف کنونشن میں خواتین کو بولے جانے پر روکنے پر برہم، ایلزبتھ کیڈی اور لوکریٹیا موٹ نے نیو یارک میں خواتین کے حقوق کے لئے کنونشن منعقد کیا۔1908میں نیویارک میں 15000 خواتین نے کام کے کم اوقات،بہتر اجرت اور ووٹ کے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارچ کیا۔ 1910 میں سوشلسٹ انٹرنیشنل، ڈنمارک میں ہونے والی ایک کانفر نس میں خواتین کیحقوق کو عزت دینے اور خواتین کے لئے عالمی سطح پر حقِ رائے دہی کے حصول کے لئے حمایت پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی یومِ خواتین کا اعلان کیا گیا۔1915میں پہلی عالمی جنگ کی مخالفت میں ہا لینڈ میں بارہ ممالک سے1300 خواتین کا بڑا اجتماع ہوا۔1917 میں روس میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔تاہم 1975 سے اقوام متحدہ کی طرف سے آٹھ مارچ عالمی یومِ خواتین کے طور پر باقاعدہ منایا جاتا ہے۔
یہ وہ دن ہے جب خواتین کو قومی، نسلی، لسانی، ثقافتی، معاشی یا سیاسی تقسیم کے بغیر ان کی کامیابیوں کے لئے تسلیم کیا جاتا ہے۔ خواتین کے مسائل اور صنفی عدم مساوات پر بات ہوتی ہے۔ خواتین کی ترقی کے لئے منشور اور منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے حامی اور خود خواتین تندہی سے اپنے لئے آواز اٹھاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے خواتین کے ایشوز پر رپورٹیں جاری کی جاتی ہیں۔ان کی ترقی کے لئے ایک پورا پلان آف ایکشن تیار کیا جاتا ہے۔ ہر سال عالمی یومِ خواتین پر ایک موضوع (Theme)کا اعلان کیا جاتا ہے۔ 2024 میں خواتین کے عالمی دن کا موضوع” خواتین میں سرمایہ کاری کریں، ترقی کو تیز کریں “ہے۔
خواتین میں سرمایہ کاری ایک وسیع وعریض موضوع ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی فریم ورک کے مطابق اگر کسی مختلف طرح سے مخصوص نہ ہو تو “خواتین “کی اصطلاح ہر عمر کی مونث انسان کے لئے ہے بشمول بچیاں اور لڑکیاں۔خواتین میں سرمایہ کاری سے صرف یہ مراد نہیں کہ انھیں آجر بنایا جائے، چھوٹے کاروبار قائم کرنے اور چلانے میں ان کی مدد کی جائے اور کاروبار میں انھیں خود مختار بنایا جائے۔ یہ سب اچھا ہے اور اس کا کیا جانا بہتر ہے۔
خاتون پر سرمایہ کاری اس وقت سے شروع ہوتی ہے جب وہ ماں کی کوکھ میں ہوتی ہے۔ماں کی متوازن خوراک، صحت کی مطلوبہ سہولیات، مناسب آرام، اشیائے ضروریات کی فراہمی کے ساتھ صحتمند ماحول عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ حاملہ عورت کامار پیٹ، گالی گلوچ،طعن وتشنیع سے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے گھر اور کام کرنے کی جگہ پر اسے کام کرنے کی پوری آزادی، تسکین،سہولیات اور معاوضہ ہو۔ مردوں کے برابر کام کا معاوضہ بھی مردوں کے برابرہو۔
بچی کی جنس معلوم ہونے پرماں سے امتیازی سلوک نہ برتا جائے۔ بیٹی کی پیدائش پر اسی خوشی سے خوش آمدید کہا جائے جیسے بیٹے کو۔اس کی ویکسی نیشن اور صحت کی باقی سہولیات کی فراہمی عورت میں سرمایہ کاری ہے۔اس کی پیدائش کا بروقت اندراج کروایا جائے۔ اس کے رہنے کے لئے مناسب گھر ہو جس میں تمام ضروری سہولیات بہم پہنچانا عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ ماں کے کام کرنے کی جگہ پر بچوں کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام عورت میں سرمایہ کاری ہے۔بچی کی تربیت اور تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ اسے بچہ مزدوری میں نہ ڈالا جائے۔سکول کی عمر کو پہنچنے پر سکول میں داخل کروانااور اس کی پڑھائی پر خرچ کرنا، عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ اس کے سکو ل کے لئے آرام دہ اورمحفوظ آمدو رفت کا انتظام کیا جائے۔مضامین اور پیشے کے انتخاب کا اختیار دیا جائے۔ جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر لے اس کی شادی نہ کی جائے۔ شادی میں اس کی پسند کو تر جیح دی جائے۔عورت کو بچے پیدا کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہے اس کا فیصلہ وہ خوداپنے ساتھی کے تعاون سے کرے۔
چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد وہ خوراک اور صحت کا اپنی ڈاکٹر کی رہنمائی میں پھر سے جائزہ لے اور ضروری وٹامنز کا استعمال شروع کرے تاکہ آئندہ زندگی میں اپنی پیداواری صلاحیتوں کا بہتر استعمال کر سکے۔عورت کے لئے ان تمام سہولیات کی فراہمی، عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ہر عمر کی عورت کی تفریح کے لئے وسائل مختص کرنا، عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ ہر عمر کی عورت کے لئے خوشی کے اسباب پیدا کرنا، عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ ہر عمر کی عورت کی ذہنی صحت کا بھی اسی طرح خیال رکھا جائے جیسے اس کی جسمانی صحت کا۔خواتین کو ان کے مکمل، مساوی حقو ق حاصل ہوں۔
اوپر بیان کی گئی عورت میں سرمایہ کاری کی تمام اشکال میں کچھ ذمہ داریاں افراد کی ہیں اور کچھ ریاست کی۔ ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ صحت وتعلیم کے لئے بہترین انفراسٹرکچر قائم کرے جہاں عورتوں کی مخصوص ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام ہو جہاں انسان ایک دوسرے کی عزت کرے اورخیال رکھیں، صنفی مساوات ہو۔ آمدورفت کے محفوظ،موثر اور سستے ذرائع ہوں۔مہنگائی قابو میں ہو۔خواتین کے لئے روزگار کے بہترین مواقع مہیا کرناخواتین میں سرمایہ کاری ہے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ان میں عورتوں کی بھر پور شمولیت عورت میں سرمایہ کاری ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سماجی، سیاسی، انتظامی، معاشی میں خواتین کی بھر پور شرکت کے مواقع فراہم کرناعورت میں سرمایہ کاری ہے۔ عورت میں سرمایہ کاری ہو گی، اس کی ترقی کے لئے خرچ کیا جائے گا تو ترقی تیز ہو گی۔ اہل اورصحتمند افراد معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ خواتین نے دنیا کے اس حصے میں زیادہ ترقی کی ہے، جہاں انھیں بہتر مواقع ملے ہیں۔ا ان ممالک نے زیادہ ترقی کی ہے جہاں خواتین میں سرمایہ کاری زیادہ کی گئی ہے۔
وطن عزیز میں خواتین کی آبادی 49فیصد ہے۔اگر ملک کی تقریباً آدھی آبادی ترقی میں اپنا حصہ نہیں ڈالے گی تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔ اگرچہ یہاں خاتون وزیر اعظم،خاتون سپیکر قومی اسمبلی،خاتون وزیر اعلیٰ اور کئی دیگر نامور خواتین کی مثالیں موجود ہیں لیکن بیشترعورتیں پسماندہ حالات میں رہتی ہیں۔ ان میں مطلوبہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ ان کے لئے ترقی کے مواقع بہت کم ہیں۔ پھر اسی شرح سے ان کی کارکردگی بھی کم رہتی ہے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھر پور حصہ نہیں ڈال سکتیں۔خواتین میں جتنی زیادہ سرمایہ کاری کی جائے گی وہ اتنی ہی بھرپور،صحتمند،ذہین اور فعال انسان ہوں گی۔اتنی ہی اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے کارآمد ہوں گی۔ ان کی پیداواری صلاحیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔اتنی ہی خاندان ترقی کرے گا، اتنی ہی ملک ترقی کرے گا۔
*******