کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ بھی بہت بامقصد اور پُر مسرت ذندگی گزار سکتے ہیں۔ اپنی ذندگی کا ہر فیصلہ ، پورے اعتماد کے ساتھ خود کر سکتے ہیں۔ پھر آخر ہم سے تاخیر کیوں ہو جاتی ہے ؟ کیوں ہم اپنی ذندگی کا چناو ، اپنے روزمرہ کاموں کا انتخاب کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں؟ ۔ ہر روز صبح سویرے اُٹھ کر سب سے پہلے مَیں چند لمحات خاموشی اور دھیان و گیان میں گزارنا چاہتا ہوں ، باقائدگی سے واک(سیر) اور ورزش کرنا چاہتا ہوں ، ہر شام میں کوئی کتاب پڑھنا چاہتا ہوں ،ہر نئے دن کچھ نیا سیکھنا چاہتا ہوں ، تخلیق کرنا چاہتا ہوں ۔اور کسی حد تک کچھ کام پورے بھی کر لیتا ہوں پھر بھی بہت سے کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور کئی خواب بس خواب دیکھنے تک ہی محدود رہ جاتے ہیں ۔ ہر رات سونے سے پہلے مسمم ارادے کے ساتھ سوتا ہوں کہ کل باقائدگی سے وہ کروں گا جس سے مجھے محسوس ہو کہ میں نے اس دنیا کو اپنی طرف سے کچھ ایسا دیا ہے جس سے نہ صرف پوری انسانیت کا فائدہ ہوا بلکہ جس سے لوگوں کی زندگی اور مسرت میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔
بستر پر جانے سے قبل الارم پر اٹھنے والی دھن لگاتا ہوں ، الارم بجتا بھی ہے ۔۔۔ آنکھ کھلتی بھی ہے ، لیکن میرے اندر سے ہی ایک مزاحمتی آواز اُٹھی ہے “ ۔ تھوڑی دیر اور سو جاؤ “ اورمیں پھر سو جاتا ہوں ۔ اور پھر سارا دن دیر ہی ہوتی رہتی ہے۔۔۔کتنے دنوں سے مَیں یہ تحریر رقم کر نے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ہر بار وہی اندرنی مزاحمت آڑھے آ جاتی ہے کہ چلو کل لکھ لوں گا۔ یاد رکھیں ! ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارے اندر سے اُٹھنے والا یہی مزاحمتی رویہ ہے جس نے ہمارے “آج “اور “ ابھی “یعنی حال کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اور اس “ابھی “اور “ آج “والے لمحات کو کھو کر نہ تو ہم اپنا ماضی اس لائق چھوڑتے ہیں جسے یاد کر کے خوشی ہوا جا سکے نہ آنے والا مستقبل اس قابل ہوتا ہے کہ جس کے سہارے اپنے پاؤں پہ کھڑے ہو سکیں ۔اور جو مقدس اثاثہ ہم جمع کر پاتے ہیں ، وہ گلے شکوے ، پچھتاوے ، اور عمر بھر کی الزام تراشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔کبھی قسمت کا رونا رو لیا، کبھی خُدا کے ساتھ گلے شکوے کر لیے اور کبھی دوسرے لوگوں کو ملزم ٹھہرا کر اپنی ناکامیاں اُن بہ لاد دیں۔ اور لے دے کہ جو بچتا ہے وہ بس اپنا ناکارہ پن ، دوسروں کی محتاجی اور دوسروں کی ذندگی میں روڑے اٹکا کر معاشرے پہ بوجھ بنے رہنا ۔
اندرونی مزاحمت کی بہت سی عملی شکلیں ہم اپنی روزمرہ ذندگی میں دیکھ سکتے ہیں ؛ ڈر، خوف، حسد، خود سے نفرت، سُستی ، کاہلی، فرار پسندی ، احساسِ برتری و کمتری ، خود فریبی، تناؤ ،نرگسیت اور تاخیر جیسے اور کئی رویے ہیں جو ہماری ذندگی کو بدصورت بنا دیتے ہیں اور ہم دوسروں کی ذندگیاں بد صورت بنانے میں کوئی کثر نہیں اٹھا چھوڑتے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو ، بغیر کسی جنسی تفرق کے ، کوئی نہ کوئی ایسا تحفہ ضرور عطا رکھا ہے جو صرف اُنہیں کی انفرادیت ہے ۔
تصور کریں اُن عظم انسانوں کا جن کی ایجادات، تحقیقات ، تخلیقات ، اور جانی قربانیوں کی بدولت آج یہ قرائہ ارض اس قابل ہے جس میں ہم کچھ اور دیر سانس لے سکتے ہیں ۔اگر سقراط ، برٹن رسل ، جین آسٹن، ، موزاٹ ،بڑے غلام علی خاں ،ایڈیسن ، نئوٹن ، ، برونو ، سمون دی بوہ ، جاں پال سارتر ، سینٹ فرانس آف اسیسی، مادام کیوری ، بلھے شاہ ، شکسپیر ، روزہ پارک ، ایرک فرام ،لتاجی ، نور جہاں ، سینٹ مدر ٹریضہ ، ابدل ستار ایدھی ،عاصمہ جہانگیر اور ہماری صدی کے عظیم شاعر نزیر قیصر جیسی ہستیاں اپنے فن و تحقیق ، اپنی تحریری اور تحقیقی عملی اور تحریکی کاوشیں سامنے نہ لاتے تو آج یہ زندگی اور دنیا کتنی بے رنگ اور بے وقعت ہوتی ۔ آئیں اج سے ابھی سے اپنی تربیت کا بیڑا خود اُٹھائیں ، اپنی ذندگی کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھیں ، اپنے اندر کی اُس مزاحمت کی مزاحمت کریں جو ہمیں ناکارہ ، کام چور، بیکار ، حاسداور بوجھ بناتی ہے۔ اپنے دل اور روح کی سنیں ، اور اپنے ذہین کو استمال میں لاکر ذندگی سے وہ خوشی و خرمی وصول کریں جو ہمارا حصہ ہے اور پھر ذندگی کے اس انمول تحفہ کو دوسروں کے ساتھ بانٹ کر اس میں اضافہ کا باعث بنیں۔ آج بھی ہماری اس دنیا میں ایسی بہت سی معاشرتی ، جسمانی ، روحانی اور ذہنی بیماریاں باقی ہیں جنہیں بروقت علاج کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر آج ان کا تدارک نہ گیا تو آنے والی نسلیں پتہ نہیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گیں