رکے تو چاند چلے تو ہواؤں جیسا ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
محترمہ پروفیسر وکٹوریہ امرت پیٹرک صاحبہ ! سے مجھے بالمشافہ ملنے کی سعادت تو نصیب نہیں ہو سکی ۔لیکن دل سے ڈھیروں دعائیں نکلتی ہیں آ ن لائن کا اہتمام کرنے والوں ۔اور خصوصاً جناب جیم فے غوری صاحب کے ساکواہ سمواہ سے مشاعروں کے لئے۔2021میں ایسے ہی ایک مشاعرے میں میری ملاقات پروفیسر وکٹوریہ امرت پیٹرک صاحبہ سے ہوئ ۔ قدرت نے اتنی شیرینی ان کے لب و لہجے اور شخصیت میں رکھ چھوڑی تھی ۔گویا خدا تعالیٰ نے ان کی مٹی گوندھتے ہوئے بہت سا شہد اور گلاب ملا دیا تھا ۔کہ باتو ں سے خوشبو آئے کی بات ان پہ پوری اترتی تھی ۔دل چاہتا تھا وہ اپنے نرم و نازک ،میٹھے سے لہجے میں بات کرتی رہیں ،کانوں میں رس گھولتی رہیں ،اور میں سنتی رہوں۔انہتائی پر کشش نقوش کی حامل تھیں کہ میں نے فیس بک پہ ان کی جوانی کی ایک تصویر دیکھی تو گویا دیکھتی رہ گئ ۔ کئ بار اسے دیکھا اف ان کا حسین اور پر کشش چہرہ گویا آ نکھوں میں بس سا گیا تھا۔ مجھے شوہر نامدار کے ایک دوست کی بات یاد آ گئی ہے ۔میں نے کسی خاتون کی تعریف کی کہ وہ بہت ہی خوبصورت ہے ،تو وہ کہنے لگے ،اگر ایک عورت دوسری عورت کی تعریف کر رہی ہے تو وہ یقیناً خوبصورت ہوگی۔
کہاں وہ آسمان ادب کا درخشاں ستارہ اور کہاں میں میدان ادب میں نئی نئی جگہ بناتی شاعرہ ۔لیکن وکٹوریہ جی جس تپاک ،خلوص اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتیں ،میرے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں اسے بیان کر سکوں ۔میرے شعروں پر بھی خوب داد دیتیں ۔مجھے بڑے پیار سے سراہتیں۔میں نے جب ان سے نمبر مانگا تو انہوں نے بلا تردد بھیج دیا۔ میں انہیں ہمیشہ وکٹوریہ جی ہی کہہ کے مخاطب کرتی تھی ۔اور وہ بھی مجھے کنیز جی کہہ کر بات کرتی تھیں ۔
اسکول کے زمانے سے عبادت کے دوران مسیحی گیت کی کتابوں میں سے بڑی عقیدت اور جوش سے ان کے گیت تو گاتے تھے ۔ان کے نام سے بھی واقفیت تھی ۔وکٹوریہ امرت پیٹرک بڑا منفرد اور خوبصورت سا نام لگتا تھا ۔لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ کبھی ان کے سامنے بیٹھ کر مشاعرہ پڑھوں گی ۔ان سے بات کر سکوں گی ۔اور وہ اس قدر حلیم اور شیریں شخصیت کی مالک ہوں گی ۔
ان سے فون پہ گاہے بگاہے بات ہوتی ،میسجز کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا ۔ہسپتال میں داخلے کا بھی انہوں نے میسج کیا ، میں نے فون کیا تو اپنی اسی میٹھی سی آ واز کہنے لگیں ۔کہ میں سات دن وینٹیلیٹر پہ رہی ہوں ۔اب خدا کے فضل سے بہتر ہوں ۔
بلاشبہ وہ ایک ہمہ جہت اور شاندار شخصیت کی مالکہ تھیں ۔بہترین مترجم ۔بہترین استاد ۔شاندار شاعرہ اور خوبصورت گیت نگار ۔ ان کا جانا میدان علم و ادب میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کر گیا ہے ۔
ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔جو علم و فن کا خزانہ ہونے کے باوجود بھی اتنے ملنسار اتنےحلیم اور اور اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان سے پہلی بار ملنے والا، ان سے بات کرنے والا بھی ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ بس حسرت ر ہ گئی ہے کہ
کاش ان سے مل کے بات کی ہوتی
کوئ قیمتی اپنی ساعت کی ہوتی
خداوند خدا انہیں اپنے آ رام میں جگہ عطا فرمائے اور ایسی سنہری شخصیت کے لواحقین کو اپنی تسلی و اطمینان بخشے ۔
شگفتگی اور شیرینی کا پیرہن : کنیز منظور
