ہر دور میں مہنگائی کی اپنی داستان رہی ہے۔اس کے اپنے اثرات و فتور ہیں۔ جمع و تفریق کا عمل ہے۔ اُتار وچڑھاؤ ہے۔ کمر توڑ وزن ہے۔ ہر سو ذخیرہ اندوز مافیا ہے۔ موقع پرستوں کا ٹولہ ہے۔ تڑپانے اور رولانے کے کئی خوابیدہ حربے ہیں۔ ماضی کے تاریک قصے و کہانیاں ہیں۔ حقائق و اثبات موجود ہیں۔ اس امر کے باوجود بھی ہر دور میں مہنگائی نے نہ رکنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ لیکن عصر حاضر میں آئی ایم ایف کے قرضوں نے عوام الناس کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہر چیز آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کاروباری لوگوں کو منافع خوری کا مرض لاحق ہو چکا ہے۔
ان کا جسم ہر وقت منافع کے درجہ حرارت سے جلتا رہتا ہے۔
خریدار بچارے حالات ،بروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو پریشان ہیں۔ مزدور سسکیاں لے رہے ہیں۔چہروں پہ اداسی اور آنکھوں میں نمی ہے۔ اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو وہ ہاتھوں میں کشکول پکڑنا۔ بازار سے کوئی چیز بھی خریدنے جائیں تو ہر چیز پر ٹیکس کا ٹیگ لگا ہوا ملے گا۔ بنیادی ضروریات زندگی سے لے کر گھریلو اشیاء کے استعمال تک ٹیکس ہی ٹیکس لگا نظر آئے گا۔ حتی کہ پھل اور سبزیاں بھی اس قدر مہنگے ہو چکے ہیں کہ پوری تنخواہ اُنھی چیزوں کی نظر ہو جاتی ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے دیگر اخراجات کہاں سے پورے کریں؟ کرائے کے مکانوں میں رہنے والے کہاں جائیں؟ بجلی کے نرخوں میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ معمولی آدمی بھی 10 سے 50 ہزار روپے تک بل ادا کر رہا ہے۔ دیگر بلوں میں ٹیلی فون، موبائل فون ، لائن لینڈ نمبر اور گیس کے بل کہاں سے ادا کریں؟ بچوں کی فیسیں بھی الگ سا معاملہ ہے۔ اگر بائیک یا گاڑی رکھی ہے تو پٹرول کا خرچہ کہاں سے پورا کرنا ہے۔ اس مہنگائی میں مہمان نوازی بھی شامل کر لیں۔ کبھی کبھار ریسٹورنٹ میں بھی کھانا کھانے کو دل کرتا ہے۔ وہاں پر بھی ٹیکس کی ادائیگی کو یقینی بنانا پڑتا ہے۔الغرض گھر ، مکان، ڈاک، ایئر لائن، ٹرین ،بس اسٹینڈ کسی بھی جگہ چلے جائیں۔ وہاں کرایوں میں اضافہ ہی ملے گا۔
مذکورہ ساری باتیں سوچ کر انسان پریشانی کے عالم میں ڈوب جاتا ہے۔اس پر نزع کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔وہ فکروں کی کثرت کے باعث نڈھال ہو جاتا ہے۔انسان کی معاشی مجبوریوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔راہ زنی جیسے واقعات بھی تواتر و تسلسل کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ملاوٹ کا دھندہ عروج پر ہے۔ کھانے کو اسپرے شدہ سبزیاں مل رہی ہیں۔ ہوٹلوں میں ناقص آئل کے باعث امراض معدہ اور کینسر جیسی بیماریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔قوم کو صحت جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ دنیا کی تقریبا ایک تہائی آبادی شوگر ،ہیپاٹائٹس، فالج، دل کے امراض، کینسر ، السر، نظام ہضم کی بیماریاں جیسے مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔شعور و آگاہی کے فقدان کے باعث زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ دیگر وجوہات میں ذخیرہ اندوزوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی بلکہ انہوں نے دو دو ہاتھوں سے عوام کو لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ہر سو تہمتیں، وحشتیں اور دہشتیں ہیں۔ شاید لوگ مکافاتِ عمل کو بھول چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی مرضی کا مالک ہے۔ لوگوں کی ہٹ دھرمی بھی عروج پر ہے کہ پل بھر میں قانون و انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے کر عدالتی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ منٹ میں حملہ کیا اور دوسرے جہان پہنچا دیا۔ معلوم نہیں یہ ہماری حالت زار ہے یا مارنے کا نشہ۔حیرت ہے لوگ الزامات کا تھوک پھینکنے سے باز نہیں آتے۔لوگ سچ کا رونا تو روتے ہیں مگر سچ کا دامن نہیں پکڑتے۔ اپنی زندگی میں جھوٹ کو جگری دوست بنا کر رکھا ہے۔معاشرتی جرائم میں روز بہ روز اضافہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ہم عملی طور پر کتنے ناکارہ لوگ ہیں۔شاید یہ کہنا واجب ہوگا کہ عصر ِحاضر کا انسان ضمیر فروش بن چکا ہے۔ اس نے اپنے جسم و روح پر خود غرضی کا لباس چڑھا رکھا ہے۔ زبان تضاد و تعارض کی رال ٹپکاتی ہے۔
عوام دماغی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہے جس کے باعث آنے والی نسلیں کمزور اور نحیف پیدا ہو رہی ہیں۔ ہر سو حرص و ہوس کا راج ہے۔ مفاد پرستی ہے۔بے روزگاری کے باعث چوریوں، راہزنیوں اور ڈکیتیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پڑھا لکھا نوجوان نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ نوجوانوں سے معاشی استحکام چھینا جا رہا ہے۔ ان کے گلوں میں بےروزگاری اور تنگ دستی کا کشکول ڈالا جا رہا ہے۔بد دیانتی بھی عروج پر ہے۔مخلصی رُوح پوش ہو چکی ہے۔ ملازمین کی مراعات ختم کی جا رہی ہیں بلکہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں 2022ء کے بعد بھر تی ہونے والے ملازمین پینشن سے مُستَثنٰی ہوں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایسے موسم اور حالات میں غریبوں کا مسیحا کون بنے گا؟ ان کے حالات کون معلوم کرے گا؟
سیاسی پارٹیاں تو اپنا اپنا ووٹ لے کر اقتدار میں آ چکی ہیں۔ وزارتوں پر فائز ہیں۔ عہدوں پر براجمان ہیں۔ سب اپنے اپنے مفاد کی خاطر ایک دوسرے کو برا کہتی ہیں۔ آخر میں میں اتنا کہوں گا کہ سب لوگوں کی زبان برکت کی جگالی لی تو ضرور کرتی ہے۔مگر گناہ چھوڑنے کا عہد کوئی نہیں کرتا۔ سب سسٹم کو برا کہتے ہیں۔کوئی اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ غریبوں کی الگ سی بستیاں ہیں جبکہ امیروں کی الگ سی سوسائٹیاں ہیں۔دونوں کے رہن سہن ، اقدار و روایات ، تہذیب و تمدن ، تعلیم و تربیت اور افکار و نظریات میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ میر تقی میر کے اس شعر سے اجازت چاہوں گا۔
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******