خوش پور کے بارے کوئی بات کرنا سونے کے پیالے میں موتی ڈالنے کے مترادف ہے۔ سفر اور حیرانی کی بیلیں تین دہائیوں سے میرے وجود کے ساتھ لپٹی ہوئی ہیں۔ مَیں نے درحقیقت ، در در کی خاک چھانی ہے اور ایک طویل عرصہ ہواؤں اور بادلوں کے ساتھ گزارا ہے۔ یہ سچ ہے کہ امریکہ میرا عشق ہے لیکن خوش پور میری پہلی محبت ہے۔
ستّر کی دہائی کی بات ہے کہ مَیں شہباز بھٹی شہید کے ساتھ خوش پور کی گلیوں میں کھیلا کُودا کرتا تھا۔ آج بھی وہ منظر کتابوں میں رکھے پھولوں کی طرح اکثر میرے سامنے آجاتا ہے۔خوش پور چرچ کی گھنٹیوں کے ساتھ بیدار ہوتا تھا اور سورج کی کرنوں کے زمین سے ٹکرانے سے بہت پہلے خوش پور کی فضائیں زبور گاتی آوازوں سے بھر جاتیں۔ خدا کی تعریف اور موجودگی کا احساس پورے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔ خوش پور کا ہنوں اور راہبات کی دھرتی ہے۔ یہاں کے سینکڑوں نوجوانوں نے سفید کفن پہن کر کلوری کے راستے کا انتخاب کیا۔ خوش پور کے درجنوں کاہنوں نے یورپ اور امریکہ میں اعلیٰ تعلیم پائی۔ راہبات نے بھی ایسا ہی کیا۔ یہاں کے مبشران ِ اِنجیل آپ کو دُنیا کے ہر خطے میں مل جائیں گے۔میرے لڑکپن کے دَور میں زیادہ تر مکان کچی مٹی کے بنے ہوئے تھے لیکن مٹی کے ان کمروں میں ایسے لوگ رہا کرتے تھے جو دیئے کی ننھی سی لَو میں اُجالے تخلیق کیا کرتے تھے۔ جی ہاں ! خوش پور دانشوروں اور بین الاقوامی لیول پر مشہور ادیبوں اور تخلیق کاروں کی دھرتی ہے۔ کچی مٹی سے بنے اِس گاؤں نے ادب کے آسمان کو کئی ستارے اور سیارے عطا کیے۔ خوش پور تعلیم کے ماہرین، شاعروں ، نقادوں ، ادیبوں اور سٹیج کے اداکاروں سے بھرا پڑا تھا۔ سٹیج ڈرامے خوش پور کے کلچر کا ایک خوب صورت حِصّہ تھے۔ یہ ڈرامے معیاری اوردِلوں کو چھُو لینے والے ہوتے تھے۔ مباحثے ، مشاعرے اور ادبی اکٹھ عام زندگی کا حصّہ بنے ہوئے تھے۔ اَسی کی دہائی میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے تین ایم اے کرنے والے سٹیون سوان چھوٹے سے ہاسٹل میں دس سال تک خدمت کرتے رہے۔ وہ آج بھی خوش پور کو اپنا گھر کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ دیگ کے اِس ایک دانے سے باقی کی دیگ کے ذائقے کا آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے دو باتوں سے بہت پریشان ہیں۔
آج کی نسل میڈیا اورینٹڈ اور انٹرٹینمنٹ اورینٹڈ ہو گئی ہے۔ٹیکنالوجی کا یُوز کم اور ابیُوززیادہ ہو گیا ہے۔ہر کوئی اپنے فون اور کمپیوٹر میں گُم ہے۔گھر کی چار دیواری میں بستے اپنے ہی چہرے انجان اور بیگا نے ہوتے جارہے ہیں۔ قرب، کرب میں بدل رہاہے، عمارتیں بڑی اوردِل چھوٹے ہوگئے ہیں، انفارمیشن بہت ہے مگر احساس بہت کم ہے۔ ڈگریاں ہیں مگر سینس نہیں ہیں ، رشتے ہیں مگر محبت نہیں، ہر چیز ترازو میں تولی جاتی ہے۔مَیں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ہمیں وارثت میں فٹ بال ، کبڈی اور کھیت کھلیان ملے۔ ہر سال کرسمس پر آل پاکستان ٹورنا منٹ ہوتا تھا۔ میں پچھلے تیس برسوں سے انگریزی ادب، تاریخ اور لیڈرشپ کا طالب ِ عِلم ہوں مگر انگریزی زبان سے میری محبت اور آگاہی سینٹ تھامس ہائی سکول خوش پور میں ہی ہوئی تھی۔خوش پور وہ سرزمین ہے جہاں میں نے تعلیم حاصل کی، جہاں مَیں نے محبتیں سمٹیں، خوش پور وہ سرزمین ہے جہاں میرے اپنوں نے مجھے گلے لگایا، میرے آنسو پونچھے، یہاں پر مجھے دوست ملے، اساتذہ ملے، علم ملا، آگہی ملی۔ میرے زندگی کے سمندر میں خوش پور ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں پر یادوں کے پھول ہمیشہ مہکتے رہتے ہیں۔
دُعاؤں اور وفاؤں کے ساتھ -خوش پورکو 125 ویں سال گرہ مبارک!!۔


