ہر سال جب کرسمس کا موسم قریب آتا ہے تو دنیا بھر میں خاص طور پر مسیحیت مخالف حلقوں اور لبرل میڈیا کے مخصوص گروپس میں ایک عجیب سا اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی دسمبر شروع ہوتا ہے، پرانے پروگرام، یوٹیوب ڈاکومنٹریز، مسیحیت مخالف لیکچرز اور پہلے سے نشر شدہ مباحثے دوبارہ “نئی تحقیق” کے نام پر سامنے لائے جاتے ہیں، اور ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ دہرایا جاتا ہے کہ “کرسمس کی جنگ” شروع ہو گئی ہے۔ یہ اصطلاح گویا ایک طے شدہ میڈیا حکمتِ عملی بن چکی ہے، جس کا مقصد ہر سال کرسمس کے موقع پر مسیحی عقائد کو کمزور کرنا اور اس عالمی تہوار کی عظمت کو مشکوک دکھانا ہے۔ اسی طرح چند لوگ مین میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی “کرسمس وار” لڑنے میں مصروف ہو جاتے ہیں جو بغیر کسی تحقیق کے پوسٹ لگانا شروع ہو جاتے ہیں، شائید وہ اپنےمسیحیت مخالف عقائد کا پرچار کر رہے ہیں!
سب سے زیادہ دہرایا جانے والا اعتراض یہ ہے کہ کرسمس کی تاریخ 25 دسمبر کسی “رومی دیوی” یا “سورج دیوتا” کے تہوار سے لی گئی ہے، حالانکہ اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں۔ صدیوں پرانی مسیحی تحریریں ثابت کرتی ہیں کہ کرسمس کی تاریخ پیگن تہوار سے نہیں بلکہ پہلی صدی کی الہٰیاتی سوچ، یہودی کیلنڈر کے اصولوں، اور ابتدائی مسیحیوں کی روحانی روایت سے نکلی ہے۔ تیسری صدی کے معروف مسیحی متن De Pascha Computus (سن 243ء) میں 25 مارچ کو “فرشتے کے پیغام” یعنی Annunciation کا دن بتایا گیا ہے، اور اسی تحریر میں واضح کلام موجود ہے کہ نو ماہ بعد 25 دسمبر پیدائش کی تاریخ منطقی نتیجے کے طور پر سمجھی جاتی تھی۔ اس متن کے لکھے جانے کے وقت رومی سورج دیوتا کا تاریخ کے ماہر تھامس جے ٹیلے اپنی کتاب ” دی اوریجن آف لیٹرجیکل ییرز 1991 ” میں لکھتے ہیں کہ 25 دسمبر کا تعلق کسی پیگن تہوار سے ثابت کرنا “تاریخ کی کم فہمی پر مبنی مفروضہ” ہے۔ اسی نظریے کی تائید مؤرخ سٹیون ہائجمینز نے اپنی معروف تحقیق “سول انویکٹس دی اوریجن آف کرائسٹ 2010 ” میں کی ہے، جہاں وہ لکھتے ہیں: “کوئی قدیم رومی دستاویز یہ ثابت نہیں کرتی کہ کرسمس پیگن تہوار سے لیا گیا ہو، بلکہ قدیم ترین شواہد اس کے برعکس گواہی دیتے ہیں”۔ اسکو “سول انویٹیکس” یعنی رومی دیوتا سے ملانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں بلکہ اسکے تمام دلائل صرف مفروضے ہیں۔
ایک عقیدہ ابتدائی مسیحی روایت میں پایا جاتا ہے کہ یسوع مسیح اُسی دن مصلوب ہوئے جس دن فرشتے نے مریم کو اُن کے جنم کی خوشخبری دی تھی۔ اسے “کامل عمر کا عقیدہ” یا “انٹئگرل ایج تھیوری” بھی کہا جاتا ہے، جس کے مطابق مقدس شخصیات کی زندگی کا آغاز اور اختتام ایک ہی تاریخ کو ہوتا ہے۔ اسی روایت کی بنا پر دوسری اور تیسری صدی کے مسیحی مفکرین—جیسے ترتلیان، ہپولیٹس اور آگسٹین—یہ لکھتے ہیں کہ مسیح کی موت 25 مارچ کو ہوئی، اور یہی دن اُن کے حمل کا دن تھا “اننسی ایشن ڈے”۔ اس عقیدے کے مطابق جب نو ماہ بعد کی تاریخ دیکھی گئی تو 25 دسمبر قدرتی طور پر یسوع کے جنم کا دن قرار پایا۔ اگرچہ یہ عقیدہ بائبل میں براہِ راست موجود نہیں، مگر ابتدائی کلیسیائی الہٰیات اور یہودی روایات پر مبنی ایک مضبوط روحانی سوچ تھی، جس نے کرسمس کی تاریخ کے تعین میں اہم کردار ادا کیا۔
ابتدائی کلیسیاؤں نے پیدائشِ مسیح کے موقع کو فوراً تہوار کی شکل میں منانا اس لئے شروع نہ کیا کیونکہ پہلی صدی کے ایماندار بڑی تعداد میں یہودی پس منظر رکھتے تھے، اور اُس دور کے یہودی عموماً جنم دن نہیں مناتے تھے—خاص طور پر اس لئے کہ جنم دن منانا ایک غیر یہودی (اہلِ فارس اور رومی امرا کی) روایت تھی۔ اس وقت کلیسیا اصل توجہ یسوع کی موت اور قیامت کے پیغام پر دیتی تھی، نہ کہ پیدائش کے جشن پر۔ لیکن اس کے باوجود پہلی صدی سے ہی “اننسیایشن فیسٹ” یعنی فرشتے کے پیغام کی یاد منائی جا رہی تھی۔ اور اگر اس عید کی تاریخ مقرر تھی تو نتیجتاً پیدائش کی تاریخ بھی اندرونی روایت میں موجود تھی، کیونکہ حمل کا ٹھہرنا اور پیدائش دونوں ایک ہی سلسلۂ ایمان کا حصہ تھے۔
کرسمس کے خلاف ایک اور عام اعتراض یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے سمبلز—جیسے کرسمس ٹری، سانتا کلاز، تحائف، چراغاں، گھنٹیاں وغیرہ—بت پرستی کے آثار ہیں۔ مگر تاریخی مطالعہ اس سوچ کو خود ہی باطل کر دیتا ہے۔ مشہور مفکر فرانسس ویسر اپنی کتاب “ہینڈ بک آف کرسچن فیسٹس اینڈ کسٹمز 1952 ” میں لکھتے ہیں کہ کرسمس ٹری کی اصل “پیراڈائز ٹری” تھی، جو قرون وسطیٰ کی جرمن کلیسیاؤں میں آدم اور حوا کے ڈرامے کے لئے استعمال کی جاتی تھی، جس کا مقصد انسان کے زوال اور مسیح کے ذریعے اس کی بحالی کی علامت بنانا تھا۔ سانتا کلاز کوئی دیوتا نہیں بلکہ چوتھی صدی کے حقیقی بشپ سینٹ نکولس آف مائرا کی یاد ہے، جو غریب بچوں کےلئے چپکے سے تحائف رکھتے تھے۔ مغربی ثقافت نے وقت کے ساتھ اس کردار کو ایک خیر خواہ بزرگ کی صورت میں پیش کیا، جس کا “عبادت” یا “پرستش” سے کوئی تعلق نہیں۔
مسیحیت مخالف حلقوں کی ایک عام چال یہ ہوتی ہے کہ وہ بائبل سے یہ پوچھتے ہیں: “کہاں لکھا ہے کہ کرسمس مناؤ؟” مگر یہ سوال بذاتِ خود ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ بائبل انسانی نجات، خدا کے مکاشفے اور روحانی تعلیم کی کتاب ہے؛ یہ نہ تو فارمولا کتاب ہے نہ تقویم کا دستور۔ بائبل کا مقصد یہ نہیں کہ تہوار کیسے منانے ہیں یا کیلنڈر کیسے ترتیب دینا ہے، بلکہ انسان اور خدا کے رشتے کو بیان کرنا ہے۔ پولس رسول رومیوں 14:5 میں واضح لکھتے ہیں کہ “کوئی شخص ایک دن کو خاص جانتا ہے اور کوئی ہر دن کو برابر سمجھتا ہے” یعنی تہوار منانا “ ایک ایمانی آزادی کا حصہ ہے، حکم کا نہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں میں مغربی لبرل میڈیا نے ایک اور رویّہ اختیار کیا ہے کہ کہنے کو “میری کرسمس” متنازع بنا کر اس کی جگہ “Happy Holidays” یا “Season’s Greetings” جیسے بے مقصد جملے عام کر دیے جائیں۔ ان جملوں کا مقصد کسی مذہبی حساسیت کو ملحوظ رکھنا نہیں بلکہ مسیح کے نام کو عوامی گفتگو سے باہر کرنا ہے۔ پوپ بینیڈکٹ شانزدہم اپنی کتاب “سپرٹ آف لیٹرجی”میں لکھتے ہیں کہ مذہبی تہواروں سے مسیح کے ذکر کو ہٹا دینا دراصل انسان کی اُس امید کو مٹانا ہے جس کا سرچشمہ صرف خدا ہے۔
یہی مذہبی اور فکری منظرنامہ آج بھی نظر آتا ہے کہ سوشل میڈیا پر کرسمس کے موقع پر دوبارہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے، اعتراضات دہرا دیے جاتے ہیں، یہ کہا جاتا ہے کہ کرسمس کا کوئی مقصد نہیں، کرسمس ٹری بت پرستی ہے، سانتا ایک پیگن روایت ہے، اور یہ کہ بائبل کرسمس کا حکم نہیں دیتی—جیسے کہ ایمان کا معیار حکم نامہ ہو اور روحانی یاد کا کوئی مقام نہ ہو۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ کرسمس نہ صرف ایک تاریخی روایت ہے بلکہ ایک روحانی حقیقت کا اظہار ہے کہ خدا نے انسان کو تاریکی میں نہیں چھوڑا بلکہ یسوع مسیح کے ذریعے اُسے نجات کی راہ دکھائی۔ کرسمس کا دن صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے روشن لمحہ ہے—جب آسمان نے انسانیت سے کلام کیا اور خدا باہم حقیقت ہے اور اشعیا نبی کی ہزار سال پرانی پیش گوئی پوری ہوئی کہ “کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی یسیعیاہ 7:14 اور میکاہ 5:2 کی نبوت پوری ہوئی کہ مسیح بیت اللحم میں پیدا ہوگا۔
کرسمس کی مخالفت اصل میں اس پیغام کی مخالفت ہے کہ انسان کے لئے اب بھی امید ہے۔ کہ گناہ آخری حقیقت نہیں۔ کہ تاریکی روشنی کو روک نہیں سکتی۔ کہ خدا انسان سے محبت رکھتا ہے۔اس لیے “کرسمس وار” چھیڑنا کسی علمی بحث کا نام نہیں بلکہ مایوسی کی علامت ہے—ایسی مایوسی جو چاہتی ہے کہ انسان ایمان، خوشی، اُمید اور نجات کے پیغام سے دور رہے۔لیکن کرسمس ہر سال یہ اعلان کرتا ہے کہ خدا کی محبت دنیا کی کسی نفرت، اعتراض یا پروپیگنڈے سے کم نہیں ہوتی۔ یہ تہوار دنیا میں سب سے زیادہ اس لیے منایا جاتا ہے کہ یہ انسان کے لئے اُس زندگی، روشنی، اور امید کا اعلان ہے جو کہیں اور نہیں ملتی۔ کرسمس اس لیے اہم ہے کہ یہ صرف یسوع کے پیدا ہونے کا جشن نہیں بلکہ خدا کے انسان کے قریب آنے کا جشن ہے—ایک ایسا قرب جو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔
یہی کرسمس کی خوشخبری ہے جو فرشتے نے ماں مریم کو یسوع کی پیدائش سے پہلے دی تھی۔۔۔ لوقا رسول کی انجیل 1 باب 31-33 ” دیکھ! تُو حاملہ ہوگی اور ایک بیٹا جنے گی اور اُس کا نام یسوع رکھنا۔وہ بزرگ ہوگا اور خُدا تعالٰی کا بیٹا کہلائے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا۔”
*******


