پھر بھی کافر یورپ والے ہیں؟ :یوحناجان

ایک بات تو حقیقت کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی بھی اور تباہی بھی ممکن صرف فرق اتنا ہے کہ کوئی کوشش کرکے کامیاب اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا اور کوئی تباہی کی دہلیز پر جاپہنچا۔آتے تو دونوں ہی ہیں مگر راستے جُداجُدا ہیں۔ دونوں راستوں پر کوشش تو کرنی پڑتی ہے چاہے برائی کا ہو یا اچھائی۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھلائی کس میں اور اچھائی کس میں ہے؟ اس کے لیے خُدا نے عقل و فہم عطا کر رکھی ہےجو روز روشن کی طرح عیاں اور دہکتے انگارے کی مانند بیاں ہے۔اب آتے ہیں ملک پاکستان کی طرف اس کی کہانی اسی کے باشندے کی زبانی ، 30 جون 2020ء سے یورپی یونین نے بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ یہ انکشاف خود پاکستان کی حکومت نے کیا ہے کہ ہمارے پائلٹ جعلی ڈگری اور لائسنس رکھتے ہیں۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ انسانی جانوں سے کھیل کھلیتے ہیں۔
پاکستانیوں کے نزدیک یہ ایک معمولی کھیل ہے وجہ ان کے نزدیک انسانی جانوں سے زیادہ معتبر جعلی ڈگری اور لائسنس ہے۔ یہ کرنے کے باوجود ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں ؟” جعلی ڈگری ، جعلی لائسنس ، جعلی ادویات یہ بناتے اور فروخت کرتے ہیں اور ” کافر یورپ والے ہیں ؟” دودھ میں پانی ، ناجائز خوری ، گوشت میں پانی ، حرام کو ذبح کرکے حلال نمایاں یہ کریں تو” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں؟” واٹر کولر کے ساتھ رکھے گلاس کو زنجیر یہ مار کر رکھیں ۔ عدالتوں میں بیٹھے ہر ایک کرپشن کے انبار ثواب کی نیت سے رشوت لے کر کہتا ہے کہ ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں” ہر دُکان پر جائیں تو نام مذہبی ، پر سب چیزیں کسبی ہیں مُردہ گوشت ، دو نمبر مشروبات ، نکارہ چیزیں بسمہ اللہ پڑھ کر یہ بیچتے ہیں ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں”۔
مزہب کے نام پر نفرت ، مصنوعی اشیاء کی قلت یہ کریں اور ساتھ ہی اپنے گھر کا کوڑا گلی میں پھینک کر کہتے ہیں کہ ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں ” جھوٹی قسمیں کھانا ، کتابیں فٹ پاتھ پر اور جوتے شیشوں میں سجا کر کہتے ہیں کہ پھر بھی کافر یورپ والے ہیں۔” اُستاد کو سرعام بے عزت کرتے ہیں حالانکہ جس نے پاکستان کا خواب دیکھا اُس نے اُستاد کی عزت کرکے یہ مقام پایا وہ استاد بھی یورپ سے تعلق رکھتا تھا کیا جاتے وقت اُس نے یہ بتایا کہ ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں ” ۔
زن ، زر اور زمین کے پُجاری ، رشوت کو چائے پانی کا نام دے کر سرعام بتاتے ہیں” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں” پیسوں کی ہوس میں یتیموں ، لاوارثوں، بیواوں کا حق یہ کھائیں ، غریب کی بیٹی کے سر پر ڈوپٹا ڈالنے کی بجائے قبروں پر ترجیح یہ دیں زندہ کو روٹی نہیں دیتے اور مرے ہووں کے ناموں پہ دیگیں یہ بانٹیں ” تو پھر بھی کافر یورپ والے ہیں “۔گناہ کو گناہ نہ سمجھ کر گناہ کرتے جائیں ، بیمار پاکستان میں ہوں اور علاج یورپ سے کروائیں ، رب سے زیادہ جعلی پیروں اور عاملوں پر یقین یہ رکھیں ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں ؟” اپنے آپ کو پڑھا لکھا تصور کرکے سڑک کنارے کوڑا پھنیک کر صفائی والے کو چوڑا یہ کہیں ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں؟” ۔نماز سے زیادہ جوتوں کی فکر کرنے والو! تم عبادت گاہ سے جوتے چرانے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اسی بنا پر پوری دنیا سے جوتے پڑتے فرصت نہیں مل رہی، بیٹی بیمار تو پریشان ، بہو بیمار ہو تو بہانے تلاش کرنے والوں کی نگاہ میں اب بھی ” کافر یورپ والے ہیں؟” ۔
بیٹیوں کا حق کھائیں، غریب کا مذاق یہ اُڑائیں ، دو قومی نظریہ پہ دھوم مچائیں ، رب والے کام یہ نبھائیں ، اپنا فرض دوسروں سے کروائیں ، گدھے کو بھی حلال بنائیں ، بیس والا فیس ماسک جعلی بنا کر بیچتے جائیں ” پھر بھی کافر یورپ والے ہیں ؟” کام نہ کرنے کی تنخواہ ، اور کرنے کی رشوت لیں ، حرام کے پیسوں سے حلال گوشت تلاش کریں ، یہ کریں تو رام لیلہ وہ کریں تو سالہ کریکٹر ڈھیلہ ، واقعہ ساہیوال ، سرگودھا ، گوجرہ ، ماڈل ٹاون، شانتی نگر ، قصور وغیرہ سب ان سے سوال کرتے ہیں کہ ” کافر یورپ والے ہیں ؟”
آخر یہ فرق کس نے پیدا کیا، کیا یورپ والوں کو یہ کہتے سُنا کی فلاں کافر ، فلاں کافر ۔۔۔ان کے ہاں کتنے گلاس زنجیروں میں جکڑے نظر آتے ہیں ، کتنوں کی جوتیاں عبادت گاہ سے چوری ہوتی ملی ہیں۔جب 1857ء میں وہ ہندوستان آئے تب تم کافر کہتے رہے اور جب ان کو معلوم ہوا اب ہمیں جانا چاہیے کیوں کہ کہیں یہ ہمارے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائیں تب بھی وہ کافر ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود تم پھر اپنی برادری اور مذہب کے جعلی ایجنٹوں کے ہاتھ چونا لگوا کر پھر اُن کی گود میں جا کر لوری سُن رہے ہو۔ بات تو پھر سیدھی اور دوٹوک ہے محنت کے ساتھ درست سمت کا ہونا ضروری ہے ، علم کے ساتھ ادب ، تعلیم کے ساتھ تربیت ورنہ پھر بھی کافر یورپ والے ہیں۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading