کاسمیٹکس کے دانشور : یوحناجان

توہم پرستی کے ماہر چاند پر قدم رکھنے کی بجائے قدیم اُلجھنوں سے نکلنے کا معمہ حل کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے قدیم سے نکلتے نکلتے جدیدیت کا قتل کر ڈالا۔ جس کا خمیازہ کچھ یوں نکلا کہ اندھا دھند مفاد پرستوں نے حرص و ہوس کو ہوا دی ، نام نہاد عاملوں نے گھر گھر اپنا آسن لگا لیا۔ رمز و ایما میں وہ تصور و خواب دکھایا جس کا حقیقت سے دُور دُور تک تعلق نہیں۔یہاں فطرت کو پہچاننے کی بجائے بے عمل پیروں کی توہمات کی بہتات کا چرچا ہے ۔ کاہل و غافل محنت کی بجائے سیدھا من مُراد پانے کو ترجیح پہ ہے۔ چہرے کی بھرمار ، لفظوں کی آبشار اور خوش نصیبی کا دارومدار صرف ان مصنوعی چہروں اور تضاد کے ماروں کی مرہونِ منت ٹھہرا۔ ادب وہ ادب نہیں جو ادبیت کا عنصر غالب نہ آنے دے۔ فن وہ فن نہ کہلایا جو احساس و ہمدردانہ جذبات پیدا نہ کرے تو پھر بات دوٹوک اور سیدھی کیوں نہیں کرتے۔
عزیزو! اگر زلیخا کا کہنا ” میرے پاس آؤ ” کہنے سے بات مکمل ہو جاتی تو پھر کیوں فضول میں کیوں کہتے ہو۔ زلیخا کے لباس ، ناز و ادا اور خون آلودہ پیراہن ساتھ چوڑیوں کا کھنکھنانا تحریر کرتے ہو۔ بے ضرورت اور بے کار جزئیات بُری شے ہے۔ ان سے باز رہنا اور احساس کا مفہوم اُبھارنا ضروری ہے۔ کیوں نہ تمھاری تحریر ، تقریر اور تصدیق میں بنی اسرائیل والا کتنا ہی خوبصورت سونے کا بچھڑا بنا ہوا ہو وہ بُت پرستی اور غیر معبودوں کی شکل و صورت قرار پائے گا۔ حالاں کہ وہ بھی ظاہری و باطنی تضاد کا نمونہ تھاجیسا کہ آج یہ طبقہ ہے۔ کہانیاں ، گیت ، غزل ، رقص ، کپڑوں کی آرائش کے ساتھ چہرے کی بھی زیبائش کر لی جائے تو کوئی فرق نہیں کیوں کہ فن وہ کہلاتا ہے جو قاری اور ناظرین و سامعین کے باطن پر اثر کرکے اصلاح کا سبب بنے ورنہ وہ بے کار اور مقصد سے خالی ہے۔ مذہب کے نام پر لوٹ ، قلم کے نام پر دھندا ، تعلیم سے تجارت ، علم پر جہالت ، فن پر زن اور شعور کی بجائے شور کا نعرہ ہو تو وہ ایک کھوکھلی رسم ہے جو بنی اسرائیل نے بچھڑا بنا کے کی۔ یہی آج کے نام نہاد تہذیب یافتہ سرعام بُت پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔
میرا کہنا اگر فن کا انتخاب تو پھر سمجھ جائیں تسلیم و رضا پر فضول بحث ہے۔ فن کسی بھی معاشرے کا احساس اور خیر مقدم ہوتا ہے جو جانچ پڑتال کی تحریک سے وجود پا کر احساس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ فطرت کی صفات کا پرچار کرتا ہے۔ انفرادیت ، اظہار کی صناعی اور قدروقیمت کو اولیت کا نام دیتا ہے پر افسوس آج ہر قلم سے بنی اسرائیل کا بچھڑا نکل رہا ہے جس کو پڑھنے کے بعد بالکل ویسے ہی نشانات ملتے ہیں جو تاریخ پر اپنے گہرے تاثرات نچھاور کر رہا ہے۔
قارئین کے چہرے پڑھنے کے بعد خلوص خاص بن کر سراقہ بازی اور نمائش کو فروغ دے رہے ہیں۔ جو جب جی میں آئے کھوکھلے شوشے ہوا میں بکھیر دیے جس کا ردعمل ہوا بھی آج آلودہ ہو کر فطرت سے نالاں ہے کہ میرا کیا قصور؟ میں نے ہی زندگی کی سانس دی ، میں ہی شناخت دینے والی پر مجھے ہی گندا کر دیا۔ مطلب سیاق نہ سباق کا پتا بنیاد ہی غلط۔عقیدہ رکھ کر ایمان فروخت کرنا، عزت دے کر کھلواڑ کرنا ، لفظ لے کر بیچ دینا ، ہنگامہ کی ڈور کو وسعت دے کر ثواب کمانا اور بگاڑ پیدا کرکے جنت کے ویزے لگوانا وہ فرسودہ خیالات ہیں جس نے چار سُو انقلاب کا نعرہ دے کر عذاب خرید لیا ہے۔
تحریر ہے اثر نہیں ، اظہار ہے ،من سے نہیں، یہی وصف بنا کر کمال کا زوال پیدا کیا ہے۔ اب تبدیلی کی جگہ ذلیلی طبقہ چاروں طرف ڈھول کی تھاپ پر بنگڑے ڈالتا ملتا ہے۔ اسے تحریر میں عیب دے کر اسلوب کی جگہ تخریب کاری کو جگہ دینا کہتے ہیں۔ جو تصنع سے بھرپور اور اندھی تقلید کی عکاسی کہتے ہیں۔ سلاست اور سادگی کا جوہر تب فن کی لیتا ہے جب لکھتے وقت وہی احساس لکھنے والے کو ہو جو تم دوسروں سے چاہتے ہو۔ جو ایک باپ کا اولاد سے توقع کرنا کے مترادف ہے ۔ بیج کا مٹی سے ، خون کا جسم سے اور فرد کا قوم سے وہی تعلق ہے جو تحریر کا قلم نگار کی ذاتی اصلاح حاصل کرنے سے ہے۔ ورنہ وہ چند کیڑے اور لکیریں ہیں۔ پاؤں افریقی اور شکل امریکی کا تضاد آج کی تحریر و تقریر کی روشنی میں آکر قاری پر رُعب جھاڑنے کا کام کرتا ہے۔ اب قاری بھی اس کا شکار ہو کر شعور کی تہیں کھولنے سے قاصر ہے۔ وہ صرف پُراسرار موت کا موجب بن گیا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے عام زندگی کا فن ، فن نہیں ہے۔ وہ کیفیت قاری پر نہیں اُترتی ۔ اب خالی برتن اور ڈی جے ساونڈ والی بلند آواز ۔ جسم ہے روح نہیں ، رنگ ہے خوشبو نہیں۔ فن ہے فنکار نہیں ، چہرے ہیں اصلیت نہیں قلم ہے طاقت نہیں ، ڈنگ ہے ڈھنگ نہیں۔ یہ سب کاسمیٹکس کے دانشوروں کی مرہونِ منت ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading