انسان اپنی زندگی میں اپنی عارضی رہائش کے لیے کس قدر پریشان رہتا ہے اور اسی تگ و دو رہتا ہے کہ اسے انتہائی آرام دہ اور پر تعیش سکونت گاہ میسر ہو۔ وہ اپنے لیے اعلی سے اعلی ترین کوٹھیاں، بنگلے اور محل بنواتا ہے اور آخر کار کچھ عرصہ یہاں قیام کے بعد وہ اپنی ابدی آرام گاہ کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ انسان کی آخری آرام گاہ کا ناپ ایک ہی ہوتا ہے، مٹی کا وزن ایک جیسا ہی ہوتا ہے جہاں نا کوئی ائرکنڈیشن اور برقی کمکمے ہوتے ہیں سب کے سب منوں مٹی کے نیچے دبے شہر خاموشاں کے مکین ہوتے ہیں۔ ان میں امیر غریب، آقا اور غلام سبھی ایک صف میں ہوتے ہیں۔ نا عہدہ و مرتبت نا مال و مفلسی فرق رہتا ہے اور نا ہی علم و ہنر اور کوتاہ فہمی کی تمیز رہتی ہے، نا کمخواب اور چیتھڑا پراہنی بلکہ سب کے سب ایک ہی ملبوس میں سجے ہوتے ہیں۔ نا دین نا مسلک نا ریش اور ناہی جدت پسندی کام آتی ہے بلکہ سب کے سب اپنے خالق کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ زمین پر مذہبی ٹھیکیداروں نے اس خاک کے بت کو بھی مذہبوں میں تفریق کر دیا ہے اور کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ اسے دوسرے مذہب کے قبرستان میں دفنایا جا سکے۔ مسلم، مسیحی اور قادیانی قبرستان علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور یہاں بھی دینی تعصب بدرجہ اتم دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں خاص طور پر بات کروں گا لاہور میں مسیحی قبرستانوں کی حالت زار سے متعلق جہاں مسیحی لوگ اپنے مردے دفناتے ہیں۔
لاہور شہر میں مسیحی قبرستان دو طرز کے ہیں ایک تو وہ قبرستان ہیں انگریزوں نے اپنے دور میں بنواے۔ انہیں گورا قبرستان کہا جاتا ہے۔ ان کا وسیع و عریض رقبہ ہوتا، مضبوط چار دیواری، راہداریاں جو کہ پھول بوٹوں سے مزین ہوتیں اور بے شمار سایہ دار درخت بھی لگاۓ جاتے۔ قبریں ایک ترتیب سے اعلی سے اعلی ترین بنی ہوتیں۔ ان قبرستانوں میں جنگ عظیم دوئم کی اجتماعی قبریں آج بھی موجود ہیں جو کہ ہماری تاریخ اور ورثے کا حصہ بننا چاہیے تھا۔ ان قبرستانوں میں نامور ہستیاں مدفن ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ لاہور کے گورا قبرستان تعداد میں 5 عدد ہیں۔ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
گورا قبرستان جیل روڈ
گورا قبرستان راوی روڈ
گورا قبرستان جی ٹی روڈ
گورا قبرستان دھرم پورہ
گورا قبرستان لاہور کینٹ
لیکن انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ انگریز کے بناۓ ہوے گورا قبرستانوں میں دیسی یعنی اسی دھرتی کے باسیوں کو دفنانے کی اجازت نا تھی بلکہ یہاں صرف انگریز فوجی اور سول انگریز ہی دفناۓ جاسکتے تھے۔ اسی وجہ سے مسیحی قبرستانوں کی دوسری طرز یعنی دیسی لوگوں کے قبرستانوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور یہاں کے دیسی مسیحیوں نے ایک دو چھوٹے چھوٹے مقامی قبرستان بنا لیے لیکن کچھ ہی سالوں بعد ہند تقسیم ہو گیا اور پاکستان وجود میں آ گیا۔ انگریز واپس چلے گئے تو یہاں کے مقامی مسیحیوں نے انگریزوں کے بناۓ ہوۓ قبرستانوں میں اپنے مردے دفنانے شروع کر دیے۔
یہ تو درست ہے کہ مقامی مسیحیوں کا ایک بہت بڑا مسلہ حل ہو گیا کہ مقامی مسیحیوں کو بنے بناۓ قبرستان مل گئے لیکن چند ایک نقصانات بھی نظر آنے لگے۔ جیسے انگریزوں کے جانے کے بعد یہ قبرستان بھی لاوارث ہو گئے، عدم توجہی کی وجہ سے ان کی حالت بوسیدہ ہو گئی، بے ترتیبی سے نئی قبریں کھودی جانے لگیں، اونٹ کٹارے اس قدر پروان چڑھے کہ یہ قابل تازیم جگہ قبرستان کم اور جنگل کا شائبہ دینے لگے، چار دیواری جگہ جگہ سے توڑ کر لوگوں نے شارٹ کٹ راستے بنا لیے، یہاں تک بربادی ہوئی کہ اردگرد کے مکینوں نے انگریزوں کی بنائی ہوئی قبروں سے قیمتی پتھر کی تختیاں اتار کر فروخت کرنی شروع کر دیں۔ چونکہ یہ مسیحی قبرستان تھے اس لیے نوجوانوں نے اسے کرکٹ کا میدان بھی بنا لیا اور اس قدر بے حرمتی کی کہ یہاں قبروں کو مسمار کر کے یہاں کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔ اور تو اور کچھ قبضہ مافیا نے راوی روڈ، جی ٹی روڈ اور دھرم پورہ کے قبرستانوں میں قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ہاں جیل روڈ والا گورا قبرستان اور نشاط کالونی لاہور کینٹ والے قبرستان محفوظ رہے۔ چند سال پہلے برگیڈیئر شرف نے دھرم پورہ قبرستان کی تزئین و آرائش کرواتے ہوے اس کی چار دیواری کی مرمت کروائی، راستے بنواۓ اور گیٹ لگواۓ۔ مگر نا جانے کیوں اس قبرستان سے قبضہ گیروں کو نا نکال سکے اور آج بھی کچھ خاندان اس قبرستان میں ذاتی گھر بناۓ ہوۓ ہیں۔ راوی روڈ گورا گورا قبرستان میں کچھ مسیحی خاندان قبضہ کیے ہوۓ ہیں۔ اس میں اصل مسلہ یہ ہے کہ ان قبرستانوں کا ریکارڈ کسی سرکاری ادارے کے پاس نہیں ہے۔ میں نے ہندو اوقاف اور مسلم اوقاف سے تصدیق کی ہے لیکن ان دونوں محکموں کے پاس مسیحی قبرستانوں کا کوئی ریکارڈ موجود نا ہے۔ ہاں یہ قبرستان کرسچن مشن کے زیر انتظام ضرور ہیں لیکن لیکن کسی مشن ادارے کے پاس ان کا باقاعدہ ریکارڈ موجود نا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ان قبرستانوں میں گنجائش نہیں رہی کہ یہاں مزید مردے دفن کیے جا سکیں اس لیے ضروری ہو گیا کہ مسیحیوں کے لیے نے قبرستان بنائے جائیں اور ان کا ریکارڑ باقاعدہ محفوظ کیا جاۓ جو کہ محکمہ اوقاف اور محکمہ مال کے پاس موجود ہو۔
جہاں تک مسیحی قبرستانوں کے مسائل کا مسلہ ہے تو ان میں سب سے بڑا مسلہ ناجائز قابضین کا ہے گورا قبرستان دھرم پورہ میں کچھ خاندان ناجائز قابض ہیں، گورا قبرستان راوی روڈ پر کچھ مسیحی خود ہی قابضین بن گئے ہین اور انہوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ فرانسس آباد میں ایک مسیحی قبرستان کی تقریبآ 7 کنال جگہ غیر مسیحیوں کے قبضہ میں ہے اسی طرح تقریبآ ہر مسیحی قبرستان پر کسی نا کسی صورت میں قبرستان کی زمین پر مسیحی اور غیر مسیحیوں نے قبضے کر رکھے ہیں۔ ان کے علاؤہ کسی بھی قبرستان میں جنازگاہ موجود نہیں نا ہی بجلی اور پانی کی سہولت موجود ہے۔ مسیحی عوام حکومت پاکستان کی عدم توجہی اور مسیحی قبرستانوں کو سہولتوں کے فراہم نا کہے جانے کی وجہ سے نا امید ہو چکی ہے لیکن مسیحی مذہبی قائدین کی طرف سے بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت مسیحی قبرستانوں کے لیے باقاعدہ نئی جگہیں فراہم کرے، موجودہ قبرستانوں سے ناجائز قابضین کو فوری طور پر اٹھایا جائے اور ان سے قبرستانوں کی جگہ خالی کروائی جاے، ہر قبرستان میں جنازگاہ تعمیر کروائی جاے، ہر قبرستان میں بجلی اور پانی کی سہولت فراہم کی جاے اور پہلے سے بنے ہوے قبرستانوں کہ مرمتی کا کام کروایا جاۓ۔
نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******