سوات میں سیاح کا ہجوم کے ہاتھوں قتل : خالد شہزاد

وادی سوات پاکستان کے سر سبز اور قدرتی خوبصورتی سے مالا مال پہاڑی علاقہ ہے جو نائین الیون کے بعد دہشتگردوں کے کنٹرول میں چلا گیا اور پھر پاک فوج نے دہشتگردوں کو چن چن کر یا تو جیلوں میں ڈالا یا پھر ان کا قلع قمع کیا۔ ایک طرف حکومت اور فوج نے ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا تو دوسری جانب پنجاب میں توہین قرآن یا توہین رسالت کرنے والے کے خلاف مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے عوامی عدالت ”گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا“ کا بیانیہ زور پکڑنا شروع ہوا۔

اس بیانیے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پنجاب کی بار کونسلوں کا انتخاب کر کے دائیں بازو کے بعض وکلا کے ذریعے سیمیناروں کا انعقاد کروایا گیا اور ساتھ ہی توہین رسالت یا توہین قرآن کے ملزمان کا دفاع کرنے والے وکلا اور مقدمہ سننے والے ججوں پر دباؤ بڑھایا تاکہ عوام میں ہمدردی اور مخالفین کو نیچا دکھایا جائے۔ اس سارے کھیل کو اپوزیشن اپنے حق میں استعمال کرتی رہی تاکہ حکومت کو پریشر میں لاکر اپنی بات اور مطالبات منوائے جائیں جس کی وجہ سے یہ بیانیہ آہستہ آہستہ سرکاری اسکولوں اور مدارس کے طالبہ میں مقبول ہو گیا۔

یہی وجہ ہے کہ صوابی میں مشال خان اس کا نشانہ بنے اور پھر پنجاب کے مختلف شہروں اور دیہات میں احمدی اور کرسچن کمیونٹی کے لوگ۔ گزشتہ شب 20جون 2024 کو محمد اسماعیل ولد قمر عزیز سکنہ سیالکوٹ نے مبینہ طور پر قرآن شریف کی بے حرمتی کی جس کی وجہ سے عوام بہ تعداد 200 / 300 تھانہ مدین ضلع سوات میں جمع ہو کر شدید نعرہ بازی کر کے مطلوب ملزم کو عوام کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے تاکہ ملزم کو عوام اپنے ہاتھوں سے کڑی سزا دیں۔

تھانہ مدین میں غصیلے عوام کی طرف سے پتھراؤ شروع ہوتے ہی پولیس نے اپنے دفاع کے لیے ہوائی فائرنگ شروع کی تاکہ لوگ منتشر ہو جائیں تاہم بپھرے عوام نے ایلیٹ فورس کی موجودگی میں گرفتار ملزم کو چھڑانے کے لیے تھانہ پر حملہ کر کے لاک اپ میں موجود ملزم کو دروازہ توڑ کر روڈ پر لے جا کر اس کے جسم پر پٹرول چھڑک کے آگ لگا دی جس نے منٹوں میں ملزم کو بھسم کر دیا۔ ملزم محمد اسماعیل عید کی چھٹیاں منانے کیلے سوات آیا تھا۔

مارچ 2022 کو کھیلوں کا سامان تیار کرنے والے شہر سیالکوٹ میں بھی ریڈی میڈ گارمنٹ بنانے والی فیکٹری کے ورکروں نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے اپنی ہی فیکٹری کے مینجر پر مبینہ طور سے قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگا کر مینجر کو برہنہ کر کے اس کے گلے میں رسا ڈال کر مختلف گلیوں میں گھسیٹنے کے بعد چوک میں لے جا کر مینجر پر پٹرول چھڑک کر اس کو نذر آتش کر دیا اور بعد ازاں حکومت پاکستان نے سری لنکن حکومت کے ذریعے مرحوم کی بیوہ کو بھاری ہرجانہ دے کر معاملہ ختم کر دیا۔

پچیس مئی 2024 کو ایسا ہی واقع پنجاب کے شہر سرگودھا کی مجاہد کالونی میں پیش آیا جس میں 75 سالہ نذیر مسیح کو بھی مبینہ طور سے توہین قرآن کی بے حرمتی کے الزام کی بنا پر عوام نے پولیس کی موجودگی میں پتھراؤ کر کے اور لوہے کے راڈ مار کر شدید زخمی کر دیا تھا جو ایک ہفتہ بعد زخموں کی تاب نا لاکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تاہم پنجاب پولیس نے اقدام قتل، کار سرکار میں مداخلت، نذیر مسیح کی فیکٹری کو آگ لگانے سمیت دہشتگردی کی مختلف دفعات لگا کر 44 ملزمان کو گرفتار کیا تاہم گرفتار ملزمان کو سرگودھا کی دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے محض دو ہفتوں بعد ضمانت پر رہا کر دیا۔

وادی سوات پہلے بھی دہشتگردوں کی وجہ سے سیاحت کے لیے بند تھی۔ ماضی میں پاکستان میں مذہب کے نام پر اپنے مخالفین سے انتقام لینے یا اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا مگر 5 تا 10 سالوں کے درمیان میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے ضمانت لینے کے بعد ملزمان روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تاہم پاکستان میں ایک مذہبی سیاسی پارٹی کی جانب سے گزشتہ چند سالوں سے عوام کو طیش دلا کر موقع پر قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے جو اب مزید پھیلتا جا رہا ہے۔ اگر حکومت یا اپوزیشن نے ابھی بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والے دنوں میں پاکستان میں کوئی بھی شخص محفوظ نہیں ہو گا۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading